ہمارے موجودہ حکمران دن رات یہ رٹ لگا رہے ہیں کہ ملک کی معاشی صورتحال بہت بہتر ہورہی ہے، شرح سود کم ہورہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں اور بیرونی ممالک سے ترسیلات زر میں پچھلی سہ ماہی سے کئی فی صد اضافہ ہوا ہے یہ معاشی اشاریے چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ ملک معاشی اعتبار سے ترقی کی راہ پر دوڑ رہا ہے۔ ان معاشی اشاریوں کی چیخ میں وہ چیخیں دب گئیں جو یونان کے سمندر میں ڈوبتے ہوئے پاکستانیوں کی تھیں۔ لیکن ہماری حکومت کو تو وہ چیخیں بھی نہیں سنائی دے رہی ہیں جو روز بروز مہنگائی کی وجہ سے عوام کے منہ سے نکل رہی ہیں۔ یہ کیسی معاشی ترقی ہے جو سرکاری کاغذات میں ہے یا اخباری صفحات میں نظر آتی ہے لیکن مارکیٹ میں جب خریداری کرنے کے لیے جاتے ہیں تو سبزی دالیں وغیرہ کی قیمتیں وہی ہیں جب ملکی معیشت زوال پذیر تھی پیاز جیسی سبزی جو ہمیشہ سستی مل جاتی تھی اب ڈیڑھ دو سو روپے کلو سے کم نہیں مل رہی۔ آئی پی پی کے حوالے سے مثبت خبریں آرہی ہیں لیکن بجلی سستی نہیں ہورہی ہے۔ معاشی اشاریے اگر مثبت ہیں تو ملک میں بے روزگاری کیوں بڑھ رہی ہے اور یہ کہ ہر سال پانچ سے دس لاکھ نوجوان جن میں اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مندوں کی ہے ملک سے باہر کیوں جارہے ہیں۔ اس برین ڈرین سے ملک کا ہی نقصان ہورہا ہے۔ نچلے درجے کے سرکاری ملازمین کی اکثریت اپنے اخراجات پورے نہیں کرپارہی ہے ان کی تنخواہیں ان کے اخرجات کے مقابلے میں بہت کم ہیں، اور دوسری طرف پنجاب اسمبلی کے ارکان اپنی تنخواہوں میں خود چار سو سے پانچ سو فی صد تک اضافہ کررہے ہیں۔ جن کی پہلے 76 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ تھی اب ان کی 4 لاکھ 76 ہزار ہوگئی ایک دم سے چار لاکھ کا اضافہ اور وزراء کی تنخواہ میں تو آٹھ لاکھ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ ارکان ہیں جو ارب پتی اور کروڑ پتی ہیں یہ اگر کوئی تنخواہ نہ بھی لیں تو ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس دن معاشی اشاریے بڑھنے کی خبر شائع ہوئی اسی دن یہ خبر بھی تھی کہ گیس کی قیمتوں میں 25 فی صد اضافہ کردیا گیا۔
اس تمہید کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں 13 اور 14 دسمبر کی درمیانی رات کو یونان کے سمندر میں ایک کشتی ڈوبنے کی خبر آتی ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈ نے 47 پاکستانیوں کو ڈوبنے سے بچالیا جبکہ ایک پاکستانی ڈوب کر ہلاک ہوگیا پھر دوسرے دن خبر آئی کہ ایک نہیں پانچ کشتیاں ڈوبی ہیں جس میں 40 پاکستانی ڈوب کر ہلاک ہوگئے، جبکہ 35 افراد نہیں مل سکے ان میں بیش تر پاکستانی ہیں کوسٹ گارڈ نے تلاش ختم کرکے بقیہ تمام افراد کو مردہ قرار دے دیا۔ ہمارے وزیر اعظم نے فوری نوٹس لیتے ہوئے ایک کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا جو اس سانحے کی تحقیقات کرے گی اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو گرفتار کرکے ان کو عبرتناک سزائیں دی جائیں گی یہ ایک رسمی کارروائی ہے جو ایسے ہر سانحے پر عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کی جاتی ہے پچھلے سال 2023 میں ایسا ہی ایک سانحہ ہوا تھا جس میں 262 پاکستانی ڈوب کر جاں بحق ہوگئے، اس وقت بھی ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے کچھ کام کیا اور اپنی رپورٹ حکومت کو دی اس میں کچھ ایف بی آر کے افسران کی نشاندہی کی گئی تھی ان کے خلاف کارروائی کی بھی سفارش کی گئی تھی کہ ان افسران کے انسانی اسمگلروں سے رابطے ہیں اور ان سے یہ بھاری رشوتیں لیتے ہیں پھر خبروں میں یہ بات بھی آئی کہ ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی تو دور کی بات ہے ان کے تبادلے بھی نہیں کیے گئے وہ اپنی جگہوں پر برقرار ہیں۔
انسانی اسمگلنگ کی مافیا بڑی مضبوط مافیا ہے پوری دنیا میں اس کا جال پھیلا ہوا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی یہ اتنے طاقتور لوگ ہیں کہ کوئی بھی حکومت آج تک ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی اور ان کا یہ گھنائونا دھندہ ہر وقت جاری رہتا ہے۔ کیا یہ مافیا اتنی مضبوط ہے کہ حکومت بھی ان کے سامنے بے بس ہے ایسا نہیں ہے بلکہ حکومت اپنے منتخب ایم این اے اور ایم پی اے کے سامنے بے بس ہے کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے اس گھنائونے کاروبار میں ملوث ہیں (ہوسکتا ہے بعض لوگ ہوں بھی) بلکہ ہوتا یہ ہے کہ انتخابات کے موقع پر یہ عناصر اپنے سرمائے اور اثر رسوخ سے پارٹی کی اور اس کے امیدواروں کی مہم چلاتے ہیں پھر جو لوگ کامیاب ہوجاتے ہیں وہ پھر ایسے لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں جو ناجائز طریقہ سے دولت جمع کرتے ہیں اور پھر کسی سیاسی جماعت یا سیاسی شخصیات کے سایہ عافیت میں آجاتے ہیں۔ کمیٹی بنادینا آسان ہے پھر کمیٹی کی رپورٹ کا آجانا بھی آسان ہے لیکن اس کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنا یہ بہت مشکل کام ہے۔
ملک سے باہر جانے بالخصوص یورپ جانے کا جنون ہماری قوم میں کینسر کی طرح پھیل رہا ہے اس کی وجوہات اور اسباب کیا ہیں اور اس سانحے کے کون کون ذمے دار ہیں؟ پہلی سب اہم وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری ہے، اس واسطے سے حکومت ہی اس سانحہ کی ذمے دار ہے ایک بات یہ بھی ہے جان لیوا کاروبار میں ملوث لوگوں کو آج تک عبرتناک سزائیں نہیں ملیں جیسا کہ حکومت کے ذمے داران ایسے ہر موقع پر قوم کو یقین دلاتے ہیں۔ اس سانحے میں ایک تیرہ سال کا لڑکا بھی جاں بحق ہوا ہے جو اپنے بڑے بھائی کے ساتھ گیا وہ دونوں بھائی ڈوب گئے اور انہوں نے ایجنٹ کو 28 لاکھ فی فرد کے حساب سے پیسے دیے تھے۔ اس رقم سے تو کوئی بھی اپنا چھوٹا موٹا کاروبار بھی شروع کرسکتا ہے لیکن سہانے مستقبل کا خواب انہیں جان کو خطرے میں ڈالنے پر مجبور کرتا ہے۔
حکومت اور ایجنٹوں کے علاوہ اس اندوہناک سانحے کے ذمے دار لوگ خود بھی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثریت قناعت کی دولت سے محروم ہوچکی ہے راتوں رات امیر بننے کے چکر میں ہم یہ خطرات مول لیتے ہیں اگر موت سے بچ گئے تو پھر جیل تو ہے ہی۔ یہ جو ہم آئے دن یہ خبریں پڑھتے ہیں کہ سعودی عرب میں اتنے پاکستانیوں کے سر قلم کردیے گئے ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے منشیات کے چکر میں پکڑے جاتے ہیں۔ قناعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اچھی خوراک، اچھی رہائش، بلند معیار زندگی کے حصول کی جدجہد چھوڑ دیں اور بس جو مل رہا ہے اسی پر اکتفا کرلیں قناعت کا مطلب یہ ہے کہ جو مل رہا ہے اس پر شکر کریں اور جائز طریقے سے مزید کی جدوجہد کریں میرے سامنے ایسی کئی مثالیں ہیں اب سے تقریباً پچاس سال پہلے ہم ایک دوست کے ساتھ مسجد سے تراویح پڑھ کے نکلتے تو ساتھ ہی ایک ٹھیلے والا آم کے جوس کا گلاس ایک روپے فی گلاس کے حساب سے دیتا تھا وہ مزے میں بہت اچھا لگتا سردیوں میں وہ معیاری سوپ بیچتا۔ کچھ دن بعد ہم نے دیکھا کہ جہاں وہ ٹھیلا کھڑا کرتا اس کے عقب میں ایک دکان تھی جو اس نے خرید لی ایک دن دیکھا کہ وہ فرد نظر نہیں آیا میں نے دوسرے آدمی جو وہاں کھڑا تھا پوچھا کیا آپ نے یہ دکان خرید لی ہے وہ صاحب کئی دنوں سے نظر نہیں اس نے کہا نہیں یہ ان ہی دکان ہے انہوں نے حسین آباد کی جامع مسجد کے سامنے ایک اور جوس کی دکان کرلی ہے کچھ دنوں بعد وہ وہاں بھی نظر نہیں آئے تو معلوم ہوا کہ حسین آباد کے روڈ پر ایک دکان لے کر فاسٹ فوڈ کا سلسلہ شروع کردیا اب وہاں کئی دکانوں پر غوثیہ ریسٹورینٹ چلا رہا ہے ایک روپے کا آم کا جوس بیچنے والا اپنی دن رات کی محنت اور دیانتداری سے کروڑوں کا بزنس کررہا ہے۔
ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو ان تاریک راتوں میں سمندر میں ڈوب کر جان دینے والوں کی موت کے ذمے دار اگر وہ خود، انسانی اسمگلر یا حکومت ہے تو ایک ذمے داری پورے معاشرے اور ہم سب کی ہے کہ ہم اس خطہ پاکستان کو ایک اسلامی اور فلاحی مملکت نہیں بنا سکے کہ یہاں امن ہو انصاف ہو تعلیم اور صحت کا معقول انتظام ہو اور نوجوانوں کے لیے ایسے روزگار کے مواقع ہوں کہ وہ ملک سے باہر جانے کا سوچیں ہی نہیں بلکہ سچی بات یہ ہے کہ ہم سب اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں اور اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہے۔