پچھلے کالم میں ہم نے عرض کیا تھا: ’’شام کی نئی قیادت سے جو لوگ پر امید تھے وہ اب تک جان چکے ہوں گے کہ ایک پر جوش قوم کے خوابوں کو پھر توڑ ڈالا گیا ہے۔ کوئی موسیٰ نہیں جو اپنی قوم کو جہالت اور پسماندگی سے نکال کر اسلام کی منزل تک لے جاسکے۔ سب کچھ امریکا اور اسرائیل کے منصوبوں کے مطابق اور ان کی خواہشات کے تابع ہے۔ اسرائیل اور اس کی پشت پناہ عالمی قوتیں عربوں کے خلاف جنگ کم وبیش جیت چکی ہیں۔ اسرائیل کی سرحد پر بیٹھی ہوئی ایران کی پراکسی حزب اللہ ہو، فلسطین کے اندر سے اسرائیل کے خلاف جدوجہد کرنے والی حماس ہو یا فلسطین کے باہر سے اسرائیل کے خلاف جدوجہد کرنے والی قوتیں، ان سب کے لیے شام ہی وہ مقام تھا جہاں سے وہ رسد اور قوت حاصل کرتے تھے لیکن اب اسرائیل نے شام کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ لبنان میں بھی اس کے قدم جم چکے ہیں۔ اب خطے سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کی راہ میں بھی اسرائیل کے سامنے کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ یہ ایک ایسی الم ناک صورتحال ہے جس میں کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ فی الوقت عالم اسلام میں کوئی نہیں جو اس نا مبارک حالات کے راستے میں بند باندھ سکے‘‘۔ بعض احباب کے نزدیک اس تجزیہ سے مایوسی اور بے دلی کا تاثر ملتا ہے۔ عرض یہ ہے کہ یہ دور ابتلا مسلمانوں پر پہلی مرتبہ مسلط نہیں ہوا۔ فلسطین کی سرزمین پر صلیبیوں نے تقریباً ایک صدی قبضہ رکھا۔ یہ دور آج کے یہود کے قبضے سے بھی زیادہ طویل تھا۔ اس وقت مسلمانوں نے یہ مثال قائم کی تھی کہ وہ دوبارہ اٹھے اور صلیبیوں سے اپنے علاقے آزاد کروائے۔ منگولوں نے عالم اسلام کو جس طرح تہس نہس کرکے رکھ دیا تھا کون تصور کرسکتا تھا کہ مسلمان پھر اٹھ سکیں گے لیکن مسلمان اٹھے اور ایسے اٹھے کہ دنیا کو حیران کردیا۔
ماضی کے ان ادوار کی طرح آج بھی عالم اسلام بد حواس اور عجیب طرح سے ہلا ہوا۔ کسی ہیبت ناک تجربے اور پراسرار صورتحال نے انہیں ماضی جیسے یا اس سے بھی کہیں بدترحالات سے دوچارکر رکھا ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے مسلم دنیا میں انقلابات کی گرم اور خونیں ہوائیں چل رہی ہیں۔ وہ اسلامی ممالک جہاں تیس تیس، چالیس چالیس، پچاس پچاس برسوں سے بد ترین ڈکٹیٹر شپ اور ظلم کی حکمرانی تھی وہاں امت نے بظاہر ظالم حکمرانوں کی حکومتوں کا خاتمہ کردیا ہے لیکن اس کے باوجود ان ممالک کو امن اور چین کے چند ماہ وسال بھی دیکھنا نصیب نہیں ہوئے اور آج بھی یہ ممالک بدترین انتشار، خانہ جنگی، انارکی اور تقسیم کی زد پر ہیں۔ ان ممالک میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور خلافت توکیا قائم ہونی تھی دور دور تک ریت کے ٹیلے ہیں اور کانٹے دار جھاڑیوں سے بھری ہوئی گھاٹیاں، کالی اور ستاروں سے عاری رات نے جن کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ ہمارے حکمران بھی اپنے مظالم کے جواز میں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم پاکستان کوعراق، سوڈان، لیبیا اور شام نہیں بننے نہیں دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ ان ممالک میں عوامی انقلابات کو سیاہ راتوں نے کیوں ہڑپ کرلیا ہے؟ وہاں امن چین سکون اور خوشحالی کی صبح کیوں طلوع نہیں ہوئی؟ وہاں کے عوام آج بھی کیوں اسلام اور شریعت کے نفاذ کو ترس رہے ہیں؟
خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مغرب نے عالم اسلام میں ایک نیا تجربہ کیا۔ کافر مغربی استعمار نے مسلم دنیا میں جو نئی طرز کی ریاستیں قائم کیں یہ ریاستیں عوام کی امنگوں کے مطابق نہیں تھیں، ان ریاستوں کو عوام کی حمایت حاصل تھی اور نہ یہ ریاستیں اس نظریہ پر استوار تھیں جو عوام کا نظریہ تھا یعنی اسلام۔ مغربی استعمار نے مسلم دنیا میں ریاست کو اس کے اپنے ہی لوگوں سے کاٹ دیا۔ جہاں ریاست اور اس کے حکمران مغرب کے نمائندے، مغربی مفادات کے نگہبان اور مغربی آئیڈیو لوجی کو نافذ کرنے کا عزم رکھتے تھے اور رکھتے ہیں جب کہ عوام صرف اور صرف اسلام کے نفاذکو اپنی منزل قرار دیتے ہیں۔
یہ مسلم ریاستیں ایک غیر فطری حقیقتیں ہیں حالانکہ یہ ریاستیں مسلم سرزمین پر واقع ہیں لیکن حکمران مغربی نظریات کے مطابق استعماری غیر ملکی طاقتوں کی مدد اور حمایت سے اپنے عوام پر حکومت کرتے ہیں۔ فطری ریاست وہ ہوتی ہے جہاں ریاست عوام کے عقائد، جذبات اور احساسات پر کھڑی ہوتی ہے، ان کی نمائندگی کرتی ہے اور انہیں نافذ کرتی ہے۔ جہاں عوام اور ریاست کے مفادات ایک ہوتے ہیں۔ غیر فطری ریاستوں میں حکمران طبقہ بار بار ’’ریاستی مفادات‘‘ کی دہائی دیتا نظر آتا ہے جو ’’عوام کے مفادات‘‘ سے متصادم اور الگ ہوتے ہیں۔ ان بظاہر مسلم ریاستوں کے مفادات اور ان کی بنیاد مغربی نظریات پر ہے جب کہ عوام اسلام کے لیے تڑپ رہی ہے۔
اس صورتحال نے مسلم دنیا کے حکمرانوں اور امت کے درمیان دشمنی کے رشتے پیدا کیے ہیں جہاں حکمران مغرب کی اندھی تابعداری میں اسلامی ریاست کے قیام کے بجائے یورپی استعمار سے وراثت میں ملی ریاست کے تحفظ اور دفاع پر اصرار کرتے نظر آتے ہیں جب کہ امت ریاست کو اسلام کے نفاذ سے مشروط دیکھنا چاہتی ہے۔ امت ان حکمرانوں کو کافر استعمار کی مثل سمجھتی ہے جن کی اطاعت کرنے کے بجائے انہیں اکھاڑ پھینکنا اور بے دخل کرنا ضروری اور لازمی خیال کرتی ہے اور امت ایسا ہی کررہی ہے۔ جواب میں حکمران بھی ظلم کرنے میں کسی کسر سے کام نہیں لے رہے ہیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تحت اٹھنے والی ہر آواز کو ختم کرنا اور جیلوں میں بدترین سلوک کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ یہ غیرفطری حکمرانی ہمیشہ بر قرار نہیں رہ سکتی ہے۔ ان غیر فطری حکمرانوں کو جانا ہی جانا، اس صورتحال کو ختم ہونا اور انقلاب سے گزرنا ہی گزرنا ہے۔
یہ کہنا اور سمجھنا کہ لوگ ’’اسٹیٹس کو‘‘ برقرار رہنے دیں اور چھوٹی چھوٹی اصلاحات سے تبدیلی کی کوشش کرتے رہیں جیسا کہ ترکی کی مثال دی جاتی ہے۔ یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی طاقت کو کمزور کرنے اور اسے ایک لا حاصل جدوجہد میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے کیونکہ اس صورت میں صدیوں میں بھی اسلام کا مکمل نفاذ ممکن نہیں۔ یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شرعی فریضے سے روکنے کی کوشش ہے۔ عوام کو انقلاب سے روکنے کے بجائے لازم ہے کہ حکمران امت کے عقیدے، جذبات اور احساسات کے ساتھ کھڑے ہوں تب ہی یہ ٹکرائو ختم ہوسکتا ہے ورنہ آج نہیں تو کل عوام نے ان حکمرانوں کے خلاف کھڑا ہونا ہی ہونا ہے۔
لیکن یہاں عوام سے ایک بڑی بھاری اور زبردست غلطی سرزد ہوجاتی ہے یا وہ سازش کا شکار ہوجاتے ہیں اور انقلاب کے ثمرات سے نہ صرف محروم کردیے جاتے ہیں بلکہ مزید آفتوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسلامی انقلاب کے تین درجے ہوتے ہیں۔ اوّل ظالم حکمران کے وجودکا خاتمہ، دوم ظالم حکمران کے نظام اور اس کی باقیات کا خاتمہ اور سوم اسلام کا نفاذ۔ پچھلی دہائیوں میں اسلامی ممالک میں رونما ہونے والے انقلابوں میں ظالم حکمران کا تو خاتمہ کردیا گیا لیکن اس کا نظام، طرز حکومت اور باقیات جوں کی توں برقرار رہیں جن کی وجہ سے یہ انقلاب ہلکی سی روشنی دکھا کر پھر اندھیروں میں ڈوب گئے۔ یہ انقلاب صرف چہروں کی تبدیلی ثابت ہوئے۔ مغرب کا ایک ایجنٹ گیا اور اس کی جگہ دوسرا ایجنٹ آکر بیٹھ گیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف ایجنٹ حکمران کو تبدیل کیا جائے بلکہ اس فکر، سوچ، طرز حکومت اور نظام کو بھی تبدیل کیا جائے جو اس ظالم حکمران کا معاون اور مددگار تھا اور پھر اس کی جگہ اسلام کو نافذ کیا جائے، خلافت علی منہاج النبوۃ قائم کی جائے۔ تب ہی امت اور حکمران ایک مثبت اور طاقتور رشتے کی طرف لوٹ سکیںگے اور ایک وجود کی طرح یکجا ہوسکیںگے جیسا کہ اسلامی شریعت کا تقاضا ہے۔