دل کی دنیا

156

انسانی جسم میں بائیں جانب گوشت کا ایک لوتھڑا ایسا ہے جو انسان کو زندگی کی ضمانت دیتا ہے۔ بچے کا زندہ و سلامت پیدا ہونا، ہاتھ پائوں ہلانا اور آواز نکالنا ہی اس بات کی علامت ہے کہ اس کے جسم میں موجود گوشت کا وہ لوتھڑا جسے دل کہتے ہیں، صحیح طرح دھڑک رہا ہے اور اپنا کام پوری مستعدی سے انجام دے رہا ہے۔ اس کا کام انسانی جسم میں موجود تمام رگوں میں خون پہنچانا اور انہیں متحرک رکھنا ہے۔ بچہ ہو یا بڑا اس پر تھکاوٹ بھی طاری ہوسکتی ہے، نیند کا غلبہ اسے بے حس و حرکت بھی کرسکتا ہے لیکن اس کے جسم میں موجود دل کو ایک لمحے کا چین نصیب نہیں۔ وہ ایک لمحے کے توقف کے بغیر ہر وقت دھڑکتا رہتا ہے اور انسانی جسم متحرک رہتا ہے۔ یہی زندگی ہے، اگر دل ایک لمحے کے لیے بھی دھڑکنا بند ہوجائے تو انسانی جسم پر موت طاری ہوجاتی ہے۔ موت اور زندگی میں صرف ایک لمحے کا فاصلہ ہے۔ یہ فاصلہ طے کرنے میں آدمی کو ایک عمر لگ جاتی ہے، خالق کائنات نے اس کے لیے جو عمر مقرر کی ہے آدمی مختلف حادثات اور بیماریوں کے باوجود لازماً عمر کی اس حد تک پہنچ کر رہتا ہے۔ اس کا دل تمام تر ناموافق حالات کے باوجود اس کا پورا ساتھ دیتا ہے لیکن جب حکم آجاتا ہے کہ رُک جائو تو دل رکنے میں ذرا سی تاخیر نہیں کرتا اور زندگی کا قصہ تمام ہوجاتا ہے۔

دل کا کام محض دھڑکنا ہی نہیں اس کا روحانی اور اخلاقی وجود اتنا وسیع ہے کہ اس میں پوری کائنات سمائی ہوئی ہے۔ اس میں خیر و شر کی تمام طاقتیں یکجا ہیں اور ان میں مسلسل کشمکش آرائی ہوتی رہتی ہے۔ آدمی دماغ سے سوچتا ہے، منصوبے بناتا ہے اور ان پر عملدرآمد کے لیے دل سے رجوع کرتا ہے، دل اگر منظوری دے دے تو منصوبے پر عملدرآمد یقینی ہوجاتا ہے ورنہ آدمی یہ کہہ کر اپنی مجبوری ظاہر کردیتا ہے کہ میں یہ کام کرنا تو چاہتا ہوں لیکن دل نہیں مانتا، دل پر خیر کی طاقتیں غالب آجائیں تو آدمی کا وجود سراسر خیر بن جاتا ہے۔ وہ اپنے ہر عمل سے خیر کو فروغ دیتا اور شر کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور زمین خیر سے بھر جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ شر سے متاثر ہوجائے تو پھر شر کو پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ آدمی کا ہر عمل اس کے دل کے تابع ہوتا ہے، دل احساسات کا منبع ہے، شاعروں نے دل کے بہت قصیدے لکھے ہیں اور اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے ہیں لیکن دل نے انہیں رسوا کیے بغیر نہیں چھوڑا۔ مرزا غالب کہتے ہیں۔

کھلتا کسی پہ کیوں میرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

دنیا میں اس وقت جو فساد برپا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ لوگوں اور خاص طور پر حکمرانوں کے دل راہِ راست سے ہٹ گئے ہیں، اقتدار کی ہوس نے انہیں اندھا کردیا ہے۔ یہی کچھ پاکستان میں بھی ہورہا ہے، ایک ایسا ملک جو اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا لیکن اسلام کو اجنبی بنا کر رکھ دیا گیا ہے، عدالتوں سے عدل و انصاف اُٹھ گیا ہے اور ہر طرف ظلم و ناانصافی دندنا رہی ہے۔ یہ سارا فساد دل کا برپا کردہ ہے جس نے ہوس کو اپنا نتہائے مقصود بنالیا ہے۔

دل کی صحت پر ہی پورے جسم کی صحت کا انصار ہے۔ دل اگر معمول کی حرکت سے ہٹ کر دھڑکنا شروع ہوجائے تو جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے، سر چکرانے لگتا ہے، سینے میں ٹیس سی اُٹھتی ہے اور پورا جسم پسینے پسینے ہوجاتا ہے، اس کیفیت کو ہارٹ اٹیک یا دل کا دورہ پڑنا کہتے ہیں۔ بعض اوقات یہ کیفیت اتنی شدید ہوتی ہے کہ دل کی دھڑکن بند ہوجاتی ہے اور آدمی آناً فاناً اس دُنیا سے کوچ کرجاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ موصوف دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔ انتقال تک نوبت نہ آئے تو آدمی کو ابتدائی طبی امداد کے بعد دل کے اسپتال سے رجوع کرنا چاہیے جہاں مختلف ٹیسٹوں کے ذریعے اس کے مرض کا تعین کیا جاتا ہے۔ اور اس کے مطابق اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ بالعموم دل کا دورہ اس لیے پڑتا ہے کہ دل کو خون فراہم کرنے والی رگیں بند ہوجاتی ہیں، اگر دو تین رگوں میں رکاوٹ ہو تو جراحت ِ دل کے ذریعے یہ رکاوٹ دور کردی جاتی ہے اور ان رگوں کو رواں دواں رکھنے کے لیے ان میں اسٹنٹ ڈال دیے جاتے ہیں۔ میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ سینہ چاک کیے بغیر لیزر کی شعاعوں کے ذریعے یہ سارا عمل مکمل کیا جاتا ہے، مریض پوری طرح ہوش میں رہتا ہے لیکن وہ یہ اندازہ نہیں کرپاتا کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ دل کا بڑا آپریشن بھی اسی طرح کیا جاتا ہے۔

آپریشن کے بعد ضروری ہے کہ دل کی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے آدمی محتاط زندگی گزارے اور جو پرہیز اور علاج اسے تجویز کیا گیا ہے اس پر عمل کرتا رہے۔ بے شک زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے۔ اقبال کی یہ شاعرانہ تعلّی اپنی جگہ

روز ازل مجھے اذن سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر

لیکن کارِ جہاں کو سمیٹنے کا سارا اختیار ربّ کائنات کے پاس ہے، وہ جب چاہے اس دُنیا کو لپیٹ کر قیامت برپا کرسکتا ہے، قیامت کا آنا اٹل ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ دل نے قیامت آنے سے پہلے ہی آدمی کی زندگی میں قیامت ڈھا رکھی ہے۔ بظاہر وہ انسانی جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے لیکن عملاً وہ پوری دُنیا پر حکومت کررہا ہے اور انسانوں کو اپنے اشارے پر چلا رہا ہے۔ اس حوالے سے مسلمانوں کا معاملہ کچھ زیادہ ہی نازک ہے۔ اقبال کہتے ہیں۔

فرد نے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں