دنیا بھر میں صحت ِ عامہ کی سہولتوں کا معیار بلند ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ معاملہ بہت اچھا ہے اس لیے اوسط عمر بھی بڑھ رہی ہے۔ جاپان میں 80 اور 100 سال کے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ اوسط عمر میں اضافہ ہوچکا ہے مگر اِس بہتری سے دنیا بھر کی حکومتیں پریشان بھی بہت ہیں۔ اوسط عمر میں اضافہ یعنی کچھ کیے بغیر کیے جانے والوں کی تعداد میں اضافہ۔ اِس صورت میں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو پنشن کی مد میں طویل مدت تک ادائیگی کرتے رہنا پڑے گی۔ مسئلہ صرف بوڑھی ہوتی ہوئی آبادی کا نہیں بلکہ معیاری افرادی قوت کی معقول حد تک دستیابی کا بھی ہے۔ دنیا بھر میں شرحِ پیدائش بھی گھٹ رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ معاملہ زیادہ سنگین ہے۔ اِن ممالک میں بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر بہت زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے اس لیے لوگ فیملی شروع کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ دنیا بھر میں باصلاحیت افراد کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ کم ہی ممالک جن میں نئی نسل معقول حد تک موجود ہے۔ جاپان میں یہ معاملہ بہت خطرناک شکل اختیار کرچکا ہے۔ معمر افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور نوجوانوں کی تعداد گھٹ رہی ہے کیونکہ شرحِ پیدائش بھی گھٹ رہی ہے۔ لوگ شادی کو بھی ترجیح نہیں دے رہے۔ دیر سے شادی کرنا اب عام بات ہے۔ نئی اور پرانی نسل کے درمیان گیپ بہت بڑھ گیا ہے۔ حکومت شادی کرنے کے لیے مالی تعاون کی ترغیب بھی دے رہی ہے مگر پھر بھی لوگ شادی کرکے فیملی شروع کرنے کو ترجیح نہیں دے رہے۔
آج دنیا بھر میں باصلاحیت نوجوانوں کی امنگ بہت بڑھ چکی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک دنیا کے انتہائی باصلاحیت افراد کی خدمات حاصل کرکے اپنی اپنی معیشتوں کو مضبوط کرنے میں مصروف ہیں۔ پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے انتہائی باصلاحیت نوجوانوں کو ترقی یافتہ معیشتیں اپنے اندر جذب کرلیتی ہیں۔ اِس کے نتیجے میں پس ماندہ ممالک پس ماندگی کی دلدل ہی میں دھنسے رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ نئی نسل سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہے یا کام کرنے کی عمر والوں کی تعداد بہت گھٹ گئی ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت کام کرنے والی نسل (15 سے 64 سال کی عمر والے لوگ) کم و بیش 5 ارب ہے۔ 1970 میں یہ تعداد 2 ارب تھی۔ 2000 کی دہائی اوائل میں یہ تعداد 4 ارب تک پہنچی اور اب 2040 کی دہائی تک یہ تعداد 6 ارب ہونے والی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ 2070 تک دنیا بھر میں کام کرنے کی عمر والے افراد کی تعداد 6 ارب 30 کروڑ ہوچکی ہوگی۔ اِس کے بعد گراف نیچے آئے گا کیونکہ آبادی کے گھٹنے کی رفتار دنیا بھر میں غیر معمولی ہے۔
معمر افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لحاظ سے جاپان کے بعد سب سے پریشان کن کیس چین کا ہے۔ چین کی آبادی بہت زیادہ ہے۔ صحت ِ عامہ کا بلند ہوتا ہوا معیار اوسط عمر میں اضافہ کر رہا ہے۔ حکومت کے وسائل پر معمر افراد کا بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ 2023 میں چین میں 60 سال یا اِس سے زیادہ عمر والے افراد کی تعداد 20 فی صد تک تھی۔ 2100 تک یہ تعداد چین میں 52 فی صد افراد 60 سال یا اِس سے زائد عمر کے ہوں گے۔ سوال صرف جاپان اور چین کا نہیں۔ آسٹریلیا میں بھی معمر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس وقت آسٹریلیا میں ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے والے اور پہنچے ہوئے افراد کی تعداد ملک کی آبادی کا 18 فی صد ہے۔ 2100 تک یہ تعداد کم و بیش 28 فی صد ہوچکی ہوگی۔
یورپ میں کام کرنے کی عمر والے افراد کی تعداد تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں باصلاحیت نوجوان تیار کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ یہی سبب ہے کہ تارکین ِ وطن سے بڑھتی ہوئی عمومی منافرت کے باوجود لوگ یورپی حکومتیں ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک سے باصلاحیت نوجوانوں کو بلانے پر مجبور ہیں۔ 2022 میں یورپی یونین کی کام کرنے والی عمر کی آبادی مجموعی آبادی کا 64 فی صد تھی۔ 2100 تک یہ تناسب 54.4 فی صد رہ گیا ہوگا۔ اس کے نتیجے میں خطے کی معاشی حیثیت خاصی متاثر ہوچکی ہوگی۔ یورپ میں معمر افراد کی تعداد کے حوالے سے اٹلی اور پرتگال 64 فی صد کے ساتھ سب سے آگے ہیں۔ اِن کے مقابلے میں، 2023 کے اعداد وشمار کے مطابق، لگزمبرگ اور ترکی میں 60 سال یا اِس سے کم عمر افراد کا تناسب 15 فی صد سے کم ہے۔ سات ترقی یافتہ ممالک کے گروپ G7 میں 2100 تک کام کرنے کی عمر والے افراد کی تعداد میں اضافے کا فرق نمایاں ہوگا۔ کینیڈا میں یہ اضافہ 18 فی صد یا اِس سے زیادہ اور امریکا میں 8 فی صد یا اِس سے زیادہ ہوگا جبکہ برطانیہ میں 5 فی صد، فرانس میں 8 فی صد، جرمنی میں 27 فی صد، جاپان میں 46 فی صد اور اٹلی میں 52 فی صد کمی واقع ہوچکی ہوگی۔ کام کرنے والی آبادی میں اضافے کی ایک صورت یہ ہے کہ دنیا بھر سے باصلاحیت افراد کو بلایا جائے۔ خیر، یہ کھیل اچھا نہیں کیونکہ جب کسی ملک کو کوئی باصلاحیت نوجوان ملتا ہے تو دوسرا ملک اْس سے محروم ہو جاتا ہے۔ نوجوانوں کی کمی اور معمر افراد کی تعداد میں اضافے سے نپٹنے کے لیے ٹیکناجی اور خود کاریت کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ جنوبی کوریا میں ہر 10 ہزار ملازمین پر ایک ہزار، سنگاپور میں ہر 10 ہزار افراد پر 730 روبوٹ اور جرمنی میں ہر 10 ہزار افراد پر 400 کمپیوٹرز کام کر رہے ہیں۔ (theglobalist.com)