بانیان پا کستان اور اسرائیل

72

وطن عزیز پاکستان کے بانیان خصوصاً بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور مصور پاکستان علامہ محمد اقبال کے ویژن کی بدولت برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی نصیب ہوئی۔ دونوں بزرگ شخصیات صرف برصغیر ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں اور اسلام کو درپیش چیلنجوں پر نظر رکھتی تھیں اور ان کی اس دور میں عالمی ایشوز کے بارے میں جو رائے سامنے آئی وہ آج بھی بعینہ حق اور سچ ثابت ہو رہی ہے۔
ضروری ہے کہ ہم اہل پاکستان عمومی زندگی اور پاکستان کی داخلی پالیسیوں کے حوالے سے ان بانیان کی سوچ اور اپروچ کو اپنے لیے ایک لائحہ عمل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسی طرح خارجہ معاملات کے بارے میں بھی ان کے ویژن اور خیالات اہل پاکستان کے لیے قول فیصل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

قائد اعظم کے 145ویں یوم ولادت کے موقع پر پاکستان میں اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم کیے جانے سے متعلق جو شور بپا ہے، زیر نظر کالم میں ان محترم شخصیات کے خطوط، خطابات اور ان کی قیادت میں مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے منظور کی گئی قراردادوں کے حوالے سے اسلامیان پاکستان کے اصولی موقف کی بنیاد تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حکیم الامت علامہ اقبال نے اپنے انتقال سے صرف ایک سال پہلے ایک برطانوی رہنما کو فلسطینی مسلمانوں کے حق میں خط لکھا اور برطانوی حکومت پر زور دیا کہ عربوں سے ناانصافی نہ کی جائے۔ علامہ اقبال کا یہ خط اعلان بالفور کے بعد فلسطین پر صہیونی قبضے کی کوششوں اور وہاں پر ایک ناجائز اسرائیلی ریاست کے قیام سے پیدا شدہ صورت حال کے حوالے سے تھا۔

علامہ صاحب فرماتے ہیں: ’میں بدستور علیل ہوں، اس لیے تفصیل سے آپ کو نہیں لکھ سکتا کہ رائل کمیشن کی رپورٹ نے میرے دل پر کیسا چرکا لگایا ہے۔ نہ یہ بتانے پر قادر ہوں کہ اس رپورٹ سے ہندوستان کے مسلمان بالخصوص اور پورے ایشیا کے مسلمان بالعموم کس قدر رنج والم کا شکار ہوئے ہیں اور ان کے غم وغصے کے جذبات آئندہ دنوں کیا رنگ اختیار کر سکتے ہیں۔ لیگ آف نیشنز کو چاہیے کہ بیک آواز ہو کر اس ظلم اور طغیان کے خلاف احتجاج بلند کرے اور برطانوی باشندگان کو سمجھائے کہ عربوں سے ناانصافی نہ کریں بلکہ ان وعدوں کو ایفا کریں جو گذشتہ جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے حکمرانوں نے برطانوی عوام کے نام عربوں سے کیے تھے۔ حقیقی طاقت کے نشے سے سرشار ہو انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے تو تباہی سے ہمکنار ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔‘

مجلس قانون ساز سے 1933 میں اپنے خطاب میں علامہ اقبال نے کہا کہ ’ہمیں اپنے دوسرے ہم مذہب مسلمانوں سے ہمدردی کے جذبات واحساسات درپیش ہیں۔ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ برطانوی حکومت فلسطین اور وزیرستان میں جو پالیسی اختیار کر رہی ہے وہ سراسر ناانصافی اور ظلم ہے۔‘ علامہ اقبال کے ان خیالات سے عرب بھائیوں کے ساتھ ہمدردی کے جذبے کا اظہار ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ پون صدی قبل حکیم الامت اپنی مومنانہ بصیرت کی بنیاد پر جو دیکھ رہے تھے وہ آج عملاً نظر آ رہا ہے اور مسئلہ فلسطین سے پورا عالم اسلام متاثر ہو رہا ہے۔
برطانیہ کی طرف سے اعلان بالفور کے سامنے آنے کے ساتھ ہی اس معاملے میں قائد اعظم کی دلچسپی شروع ہوگئی اور انہوں نے فلسطین اور فلسطینی مسلمانوں کے مستقبل کو درپیش ہونے والے خطرات کو محسوس کر لیا۔ اس بارے میں پہلا ردعمل اعلان بالفور کے فوری بعد سامنے آیا۔ قائد رحمہ اللہ کا کہنا تھا کہ ’میں برطانوی حکومت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین کو اگر منصفانہ اور آبرومندانہ طریقے سے حل نہ کیا گیا تو سلطنت برطانیہ کے لیے یہ تبدیلی کا نکتہ آغاز ہو گا۔ برطانیہ نے فسلطینی عربوں کی رائے عامہ کو طاقت وجبر سے کچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہم برصغیر کے مسلمان اس موڑ پر عرب موقف کے حامی ہیں اور ان کی منصفانہ جدوجہد میں ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ عرب مسلمان اپنے جائز حق کی جدوجہد میں ضرور کامیابی حاصل کریں گے۔‘

مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنو میں 15 اکتوبر 1937 کو قائد اعظم نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے برطانوی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
’مسئلہ فلسطین کا تمام مسلمانوں پر گہرا اثر پڑا ہے۔ حکومت برطانیہ کی پالیسی رہی ہے کہ اس نے شروع سے لے کر اب تک مسلمانوں کو دھوکا دیا اور عربوں کی اعتبار کر لینے والی فطرت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ برطانیہ نے عربوں کو مکمل آزادی دینے کے حوالے سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے بلکہ ہوا یہ کہ برطانیہ نے جھوٹے وعدے کر کے خود فائدہ اٹھایا اور بدنام زمانہ اعلان بالفور کے ذریعے خود کو ان پر مسلط کر دیا اور یہودیوں کے لیے قومی وطن بنانے کی پالیسی بنانے کے بعد برطانیہ اب فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ رائل کمیشن کی سفارشات نے اس الم ناک داستان کا آخری باب لکھ دیا ہے۔ اگر یہ نافذ کر دیا گیا تو عربوں کی اپنے آزاد وطن کی تمناؤں اور آرزوؤں کا خون ہو جائے گا۔ اب ہمیں یہ کہا جا رہا ہے کہ اصل واقعات (زمینی حقائق) پر غور کریں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ حالات پیدا کس نے کیے ۔۔۔ میں حکومت برطانیہ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر اس نے مسئلہ فلسطین کا تدبر، جرات اور دلیری وانصاف کے ساتھ فیصلہ نہ کیا تو یہ برطانیہ کی تاریخ میں ایک تازہ انقلاب کا دروزہ کھول دے گا ۔۔ مسلمانان ہند عربوں کے اس منصفانہ اور جرات مند جہاد میں ان کی ہر ممکن مدد کریں گے۔‘

بانی پاکستان کے اس خطاب کے دو روز بعد 17 اکتوبر 1937 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں فلسطینیوں کے حق میں منظور کی گئی ایک قرارداد میں کہا گیا: ’رائل کمیشن کی سفارشات اور برطانوی وزیر کا سفارشات کے حوالے سے بیان مسلمانوں کے مذہبی احساسات سے متصادم ہے۔ اس صورت حال میں مسلم لیگ برطانوی حکومت سے مطالبہ کرنا چاہتی ہے کہ وہ اپنی اس پالیسی سے فوراً دست بردار ہو جائے۔ نیز برطانوی حکومت ہند کی توجہ اس جانب مبذول کرتی ہے کہ لیگ آف نیشنز کی اسمبلی سے ہندوستانی نمائندوں کو ہدایت کرے کہ وہ عربوں کے مذہبی اور شہری حقوق کے تحفظ کے پیش نظر فلسطین سے غیر ملکی اقتدار اٹھائے جانے کا مطالبہ کریں اور ایسے ہر فیصلے سے الگ رہیں جو عربوں کو ان کے اصولی حق سے محروم کرنے کے لیے ہو۔‘

فلسطینی مسلمانوں کے حق کے لیے آواز برصغیر میں تحریک پاکستان کے ساتھ ساتھ بلند ہوتی رہی اور اسلامیان ہند جہاں اپنی آزادی کے لیے مصروف جہد رہے، وہیں انہوں نے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی میں کبھی کوتاہی نہ کی۔ مسلم لیگ کے ہر اہم اجلاس میں اس معاملے پر مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے عرب مسلمانوں کا ساتھ دینے کے عزم کا اعادہ کیا جاتا رہا۔ 26 دسمبر 1938 کو مسلم لیگ کے پٹنہ میں ہونے والے اجلاس میں قائد اعظم نے ان خیالات کا اظہار کیا: ’مسلمانان برصغیر اپنے عرب بھائیوں کی جدوجہد آزادی برائے خود مختار ریاست کے معاملے میں ان کی مدد سے ہرگز گریز نہ کریں گے۔‘

قیام پاکستان کے بعد قطع نظر اس کے کہ حکومت کا تعلق کس جماعت سے تھا ہر حکومت نے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ اگرچہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ پاکستان کے عوام کے جذبات اس سلسلے میں شدید ترین رہے اور حکومتوں کے لیے ان جذبات کی بعینہ ترجمانی ہر دور میں ہو سکی ہے۔ لیکن یہ اپنی جگہ سچ ہے کہ کسی بھی حکومت نے تمام تر دباؤ کے باوجود اسرائیل کی ناجائز ریاست کو آج تک تسلیم نہیں کیا اور پاکستان کا ایک ایک شہری آج بھی اسرائیل کو ناجائز ریاست سمجھتا ہے۔

اپنے اس اصولی موقف کی پاکستان کو براہ راست اور بالواسطہ دونوں صورتوں میں بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان کے اندر پوری قوم جن امور پر سیسہ پلائی دیوار ہے ان میں سے ایک مسئلہ فلسطین اور قبلہ اول کی یہودی تسلط سے آزادی ہے۔ یہ اصول اہل پاکستان کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ پاکستانی قوم کی روایت بھی اور بانیان پاکستان کا ورثہ بھی۔ اس لیے اس سے پیچھے ہٹنے کا سوچنا بھی محال ہے۔

اہل پاکستان کے دل فلسطینی بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ اپنے اس امتیاز پر اہل پاکستان بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں کہ ان کا یہ جذبہ شبنم کی طرح پاک اور فولاد کی طرح مضبوط ہے۔ اہل پاکستان کے اس واضح، دوٹوک اور اٹل موقف کی وجہ سے ناجائز اسرائیلی ریاست پاکستان کو اپنا دشمن قرار دیتی ہے اور بانی پاکستان نے فلسطین اور اسرائیل کی ناجائز ریاست کے سلسلے میں قوم کو جو پیغام دیا ہے وہ الحب للہ والبغض للہ کے مصداق ہے۔

بانی پاکستان کے 145 ویں یوم ولادت کے موقع پر اہل وطن اس امر کا اعادہ کرتے ہیں کہ بلاشبہ یہ محبت فلسطینی بھائیوں کے لیے ہے۔ نفرت اور بغض ناجائز جارح اسرائیلی ریاست اور اس کی ظالمانہ کارروائیوں کے لیے ہے۔