بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کا147واں یومِ ولادت آج یومِ قائداعظم کے طور پر قومی اور ملی اتحاد و یگانگت کے جذبے اور ملک کے دفاع و سلامتی کیلئے فکرمندی کے ساتھ منایا جا رہا ہے آج کے دن کی مناسبت سے بانی پاکستان کی یادیں تازہ کرتے ہوئے قیام پاکستان کیلئے ان کی بے پایاں جدوجہد‘ قیام پاکستان کے مقاصد اور اسکے حصول کیلئے برصغیر کے مسلمانوں کی جانب سے دی گئی قربانیوں کو اجاگر کیا جائے گا‘ بلاشبہ تاریخساکن پانی کی طرح گہرائی میں چلتی ہے۔ جب کوئی اس میں غوطہ لگاتا ہے تو اسے یہ احساس ہونے کا امکان ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں کچھ بھی واضح نہیں ہے۔ کوئی بھی نیچے کی طرف نظر نہیں آتا اور جتنا گہرائی میں جاتا ہے، اتنا ہی زیادہ امکان ہوتا ہے کہ آپ ان عجیب و غریب مخلوقات کا سامنا کریں گے جن کے بارے میں آپ کو اندازہ بھی نہیں تھا۔ایسی بہت سی مخلوقات کچھ لوگوں کے لیے دلکش ہو سکتی ہیں، جو انھیں اس بات کے بارے میں سمجھدار بناتی ہیں کہ تاریخ کی سطح کے نیچے کیا ہے۔
لیکن کچھ لوگ گہرائی میں غوطہ لگانے کے لیے خوفزدہ ہو سکتے ہیں تاکہ تاریخ کی سطح کی اس پرسکون خاموشی میں خلل نہ پڑے جس سے وہ سب سے زیادہ راحت محسوس کرتے ہیں۔ اسی بات کو لے لیجیے کہ پاکستان میں دہائیوں سے جاری اور نہ ختم ہونے والی بحث ہے کہ محمد علی جناح کیسا ملک چاہتے تھے؟ ایک طرف، ایک جانب سیکولر قوتیں ہیں اور دوسری جانب دینی اور مذہبی قوتیں‘ دونوں کا اپنا اپنا نکتہ نظر ہے‘ لیکن یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ محمد علی جناح پاکستان کو ایک ‘اسلامی جمہوریہ’ کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے اور یہی تصور ان کے ذہن میں تھا کہ پاکستان ‘اسلامی ریاست’ بن جائے‘قیام پاکستان کے صرف ایک سال ایک ماہ بعد بانی پاکستان کی وفات حسرت آیات ایک ایسا قومی المیہ ہے جس کے اثرات آج تک محسوس کئے جا رہے ہیں‘ کیونکہ قیام پاکستان کے بعد قوم کو درپیش سنگین مسائل کے حل اور اندرونی و بیرونی سازشوں سے نمٹنے کیلئے قائداعظم کی رہنمائی کی اشد ضرورت تھی۔ مہاجرین کے سیلاب‘ بھارت کی اثاثوں کی تقسیم میں ریشہ دوانیوں اور بائونڈری کمیشن کے غیرمنصفانہ فیصلوں پر نتیجہ خیز بات نہ ہو پائی جن کے نتیجے میں کشمیر کے تنازعہ نے جنم لیا اور گورداسپور سمیت پنجاب کے متعدد علاقے پاکستان کا حصہ نہ بن سکے۔
اسی طرح ملکی آئین کی تدوین اور ملک کی مختلف اکائیوں کے مابین بنیادی معاملات پر اتفاق رائے کے حصول میں جو تاخیر ہوئی‘ وہ قائد کی وفات کی وجہ سے مزید الجھ گئے اب یہاں ایک بہت بڑا سوال ہے کہکیا 1949 کی قرارداد مقاصد عملی شکل اختیار کر چکی ہوتی یہ بہت پہلے منظور ہوجاتی اگر بانی پاکستان محمد علی جناح کا قیام پاکستان کے بعد اتنی جلدی انتقال نہ ہو جاتا؟ جناح نے پاکستان کا تصور ایک ایسے ملک کے طور پر کیا تھا جہاں ہندوستان میں سابقہ اقلیت اکثریت میں آجائے گی جناح چاہتے تھے کہ نئی اکثریت ان کے عقیدے کی ایک جدید، ترقی پسند اور جمہوری تشریح کے ذریعے چلائی جائے جو تھیوکریسی کے تصور سے پرہیز کرے کیونکہ نئے ملک میں غیر مسلموں کو مساوی شہری سمجھا جانا تھا۔ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں محمد علی جناح اور سید مودودی کا آپس میں باہمی تعلق ایک مستند دستوایز کی صورت میں مل جاتا ہے ‘ ریڈیو پاکستان پر مولانا مودوی کا اسلامی ریاست کا تصور پیش کرنے کی درخواست اور خواہش کے پیچھے قائد اعظم کی یہی تمناء تھی کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست بن جائے ‘ قائد اعظم کی خواہش کے مطابق ان کے ورژن کو بہترین طریقے سے پیش کا یہی ایک طریقہ تھا جس کے لیے انہوں نے عظیم مدبر مولانا مودودی سے درخواست کی‘ ہمیں چاہیے کہ ہم تاریخ کا کسی تعصب کے بغیر مطالعہ کریں‘ اور حوالوں کو اہمیت دیں‘جیسا کہ جناح کی 23 اپریل 1943 کو کی گئی تقریر سے: ”میرا خیال ہے کہ آپ مجھے اس بات سے آگاہ کریں گے کہ جب ہم نے 1940 کی قرارداد لاہور منظور کی تھی تو ہم نے لفظ ‘پاکستان’ استعمال نہیں کیا تھا۔ ہمیں یہ لفظ کس نے دیا؟ ہندوؤں نے یہ لفظ ہم پر ڈالا…محمد علی جناح یہی بات کرتے ہیں اور ایک علیحدہ وطن کے لیے مسلمانوں کی دلی مراد اور تمناء کی منشاء بیان کرتے ہیں 19 ویں صدی کے آخر میں ہندو قوم پرست، ناباگوپال مترا، اور 20 ویں صدی کے ابتدائی آدمی جیسے بھائی پرمانند، لال راجپت رائے، ایم ایس گولوالکر اور وی ساورکر، سبھی نے ہندوستان کے ہندوؤں کو ایک ”قومی متعصب نسل” کے طور پر بیان کیا جو فنا ہو جائے
گی۔ اگر اس علاقے کے غیر ہندو باشندے ”پاک” نہیں ہیں‘ انہوں نے ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو الگ الگ نسلوں کے طور پر بھی بیان کیا 1943 کی تقریر میں، قائد اعظم جناب محمد علی جناح محض اس حقیقت کی نشاندہی کر رہے تھے کہ یہ ہندو قوم پرست تھے جو ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنا انکلیو بنانے کے لیے دھکیلنے پر تلے ہوئے تھے۔ اس طرح، اس خیال کو ختم کر دیتا ہے کہ جناح کی سیاست ‘فرقہ وارانہ’ تھی۔ فرقہ وارانہ تصورات پہلے دوسری طرف سے نکلے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ایک ”اسلامی جمہوریہ” کی وکالت ہی کر رہے تھے جس قدر بھی گہرائی میں ڈوب کر اس بات کی تصدیق اور تحقیق کرنی چاہیے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کا ہی انتخاب کیوں کیا گیاکو وہ ریڈیو پاکستان پر اہل پاکستان کے لیے ایک اسلامی ریاست کے تصور کو کھول کھول کربیان کریں یہ اس لیے کیا کہ محترم جناب سید مودودی نے پاکستان کو ایک مسجد کا درجہ دیا تھا کہ مسلمانوں نے پاکستان کے اسلامی ریاست کے تصور کو قبول کیا اور نئے ملک کی طرف ہجرت کی مولانا مودودی نے قائد اعظم محمد علی جناح کے انتقال کے بعد اور مارچ 1949 کی قرارداد مقاصد کی منظوری کے لیے بھر کردار ادا کیا اور پاکستان کو ایک اسلامی جمہوریہ کے طور پر تیار کرنے کا عزم کیا‘ قائداعظمؒ کی زندگی میںنہ تو اسٹیبلشمنٹ کو جمہوری اداروں اور سیاسی نظام میں دخل اندازی کا موقع ملتا اور نہ ملک کے مختلف سیاسی و مذہبی طبقات اور جغرافیائی اکائیوں میں اختلاف کی خلیج گہری ہوتی‘ کیونکہ قوم کے بھرپور اعتماد‘ احترام اور عقیدت کے علاوہ خداداد بصیرت کی وجہ سے قائدؒ نہ صرف اتحاد و یکجہتی کی علامت تھے بلکہ لاینحل مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت سے بھی مالامال تھے اور یہ صلاحیتیں قوم کی کشتی کو مسائل کے گرداب سے نکالنے میں صرف ہوئیں۔
صرف ایک سال کے مختصر عرصہ میں قائداعظمؒ رحلت فرما گئے اور ساڑھے تین چار سال بعد ان کے جانشین لیاقت علی خان بھی شہید ہو گئے۔ قائداعظمؒ کی رحلت کے بعد مسلم لیگ بھی ملک کی بانی جماعت کے طور پر اپنا مضبوط اور موثر کردار ادا کرنے کے بجائے حصوں بخروں میں بٹتی چلی گئی اور اس کا فائدہ ان سیاسی ومذہبی قوتوں نے اٹھایا جن میں سے بعض یا تو قیام پاکستان کی مخالف تھیں یانظریہ پاکستان سے اتفاق نہیں کرتی تھیں۔ مسلم لیگ کی تقسیم‘ قائداعظمؒ کے ساتھیوں کی باہمی سرپھٹول‘ آئین کی تدوین میں بے جا تاخیر اور ملک کے مختلف حصوں میں جنم لینے والے نسلی‘ لسانی‘ علاقائی اور فرقہ ورانہ اختلافات کی وجہ سے جمہوری نظام کمزور ہوا اور سول و خاکی بیوروکریسی نے پرپرزے نکالنے شروع کئے۔ قائداعظمؒ نے انگریز اور ہندو سے لڑ کر ذات برادری اور فرقے کی بنیاد پر منقسم مسلمانوں کے انبوہ کثیر کو ایک قوم بنایا تھا اور اپنی پرامن‘ سیاسی جدوجہد‘ مثالی بصیرت‘ امانت و دیانت اور مسلم عوام کے تعاون سے ایک ایسی آزاد ریاست کا قیام ممکن بنایا جسے انگریز اور ہندو پریس دیوانے کی بڑ قرار دیتے تھے مگر ان کی وفات کے بعد مفاد پرست سیاست دانوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اس ارض وطن کو جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانے سے متعلق قائداعظم کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا اور مملکت خداداد کو اپنی خواہشات کا اسیر بنالیا۔
قائداعظمؒ نے مسلم قوم کو متحد کیا‘ اسے ایک نصب العین دیا اور الگ وطن کے قیام کیلئے پرامن جمہوری جدوجہد کی راہ دکھائی‘ تاریخ کے حوالے بہت سے ہیں‘ قائد اعظم کی وفات کے بعد اور قیام پاکستان کے بعد انہوں نے آئین کی تشکیل کا معاملہ عوام کے منتخب نمائندوں پر چھوڑا اور خود کو بطور گورنر جنرل سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ مسلم لیگ کی صدارت سے الگ کرکے پارلیمانی جمہوریت کی جانب پیش رفت کی جس میں پارلیمنٹ خودمختار اور عوام کے منتخب نمائندے ہی قومی معاملات اور حکومتی امور چلانے کے حق دار ہوں لیکن بدقسمتی سے قائداعظمؒ کی وفات اور انکے جاںنشینوں کی کمزوریوں کی وجہ سے 1958ء میں ملک کو جمہوریت کی پٹڑی سے اتار دیا گیا اور پھر 1958ء سے لے کر آج تک مسلم لیگ نے ہی آمروں کو سہارا دیا مسلم لیگ کی باہمی سر پھٹول کی وجہ سے اور بدقسمتی سے پاکستان اس منتخب جمہوری دور میں بھی شدید بحرانوں اور مسائل کی آماجگاہ بنا رہا۔ حکمران اقبال و قائد کے وارث ہونے کے ضروردعویدار تھے لیکن ملک و قوم کو درپیش مشکلات سے نجات دلانے کی ان میں وہ کمٹمنٹ مفقود ہی رہی جس کے حالات متقاضی ہیں۔ قائد کی جانشینی کے دعوے دار مسلم لیگی حکمران بھی عوام کی توقعات اور قومی سلامتی کے تقاضوں پر پورا نہ اتر سکے تو قوم نے 25 جولائی 2018ء کو اقتدار عمران خان کے سر سجا دیا جنہوں نے ریاست مدینہ کا اعلان و عہد کرکے بانیانِ پاکستان قائد و اقبال کے وضع کردہ قیام پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کا بیڑہ اٹھایا مگر وہ نہ ملک کو گھمبیرمسائل سے دو چار کرگئے اور ملک کو ریاست مدینہ جیسی اسلامی‘ فلاحی جمہوری ریاست کے قالب میں نہ ڈھال سکے ان کی حکومت نے مالی اور اقتصادی پالیسیوں سے عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل مزید بڑھا دیے‘ اور عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اقتدار سے الگ کر دیے گئے اور حکومت اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے سپرد ہوا جس کے سولہ ماہ نے عوام کو چھٹی کا دودھ یاد دلادیا آج بھی قائداعظم کا پاکستان بدترین سیاسی عدم استحکام اور انتشار کی زد میں ہے اور ملک کی معاشرت و معیشت تباہی کے دہانے تک جا پہنچی ہے۔
آج یہ خوش آئند صورتحال ضرورپیدا ہوئی ہے کہ ملک میں انتخابات ہونے جارہے ہیں لیکن بانی پاکستان قائداعظم کے فلسفہ حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میں کہیں نظر آرہا ہے ؟ یہ حقیقت ہے کہ قائداعظم پاکستان کو جدید اسلامی جمہوری‘ فلاحی ریاست کے قالب میں ڈھالنا چاہتے تھے مگر بدقسمتی سے قائداعظم کا یہ خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا اور اتحادی جماعتوں کی حکومت میں بھی بیرونی قرضوں کے دلدل میں دھنسی اس ارض وطن کے باسیوں کیلئے پہلے سے بھی زیادہ گھمبیر ہوتے روٹی‘ روزگار کے مسائل اور مہنگائی کے آئے روز اٹھتے سونامیوں نے اس ملک خداداد کی تشکیل کے مقاصد ہی گہنا دیئے ہیں۔ آج عوام اس سے بھی زیادہ برے اقتصادی حالات کا سامنا کر رہے ہیں جو غیرمنقسم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے الگ خطے کے حصول کا باعث بنے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندو اور انگریز کی سازش کے تحت قطعی بے وسیلہ خطہ ارضی پر مشتمل پاکستان اس یقین کے ساتھ قائداعظم کے حوالے کیا گیا کہ وہ تادیر اسے سنبھال نہیں پائیںگے۔مگر قائداعظم نے اپنی کمٹمنٹ کے تحت اسی کمزور معیشت والے پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کرکے دکھایا۔ اگر قائداعظم حیات رہتے تو اسکی سلامتی کیخلاف بھارت کی کوئی سازش پنپ نہ پاتی مگر انکے انتقال کے بعد ہندو بنیاء لیڈر شپ کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی گھنائونی سازشیں پروان چڑھانے کا بھی نادر موقع مل گیا۔ یہ سازشیں آج جنونی مودی سرکار کے دور میں انتہاء کو پہنچ چکی ہیں جس نے قائداعظم کی قرار دی گئی شہ رگ کشمیر پر اپنے پانچ اگست 2019ء والے جبری اقدام کے تحت مستقل تسلط جما کر گزشتہ 1636روز سے کشمیریوں کو گھروں میں محصور کر رکھا ہے اور پاکستان ہی نہیں پورے علاقے کی سلامتی خطرے میں ڈال رکھی ہے جبکہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت کسی عالمی دبائو کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا۔ پاکستان کی سلامتی کیخلاف یہ بھارتی عزائم بھانپ کر ہی عساکر پاکستان اپنے سپہ سالار جنرل عاصم منیر کی زیرکمان ہر محاذ پر مستعدد و چوکس ہیں اور عسکری قیادتوں کی جانب سے بھارتی جنگی جنونی اقدامات کے تناظر میں جنگی تیاریاں بڑھانے کا گاہے بگاہے عندیہ دیا جاتا ہے کیونکہ آج بھارت کی مودی سرکار کے ہاتھوں پاکستان کی سالمیت کو پہلے سے بھی زیادہ خطرات لاحق ہیں جو پاکستان دشمنی پر مبنی ایجنڈا کی تکمیل کیلئے پاکستان پر جارحیت مسلط کرنے پر تلی بیٹھی نظر آتی ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے قومی سیاسی قائدین کی باہمی چپقلش اور خود غرضیوں کے نتیجہ میں بڑھتا اندرونی انتشار اور سیاسی عدم استحکام پاکستان کی سالمیت کیخلاف ملک دشمنوں کو مزید کھل کھیلنے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ موجودہ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد و یگانگت پیدا کریں‘ ملک کو سیاسی انتشار اور اقتصادی عدم استحکام کا شکار نہ ہونے دیں۔ بلیم گیم کی سیاست کی بنیاد پر دشمن کو اپنی اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع نہ دیں اور امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کے نتیجہ میں خطے میں بگاڑا جانیوالا طاقت کا توازن بہتر سفارتی اور سیاسی حکمت عملی کے تحت درست کرنے کی کوشش کریں۔ اس کیلئے ہمیں چین اور روس کے ساتھ بالخصوص دفاعی تعاون مضبوط بنانا ہوگا۔ خدا قائد کے پاکستان کو ہر قسم کی اندرونی اور بیرونی سازشوں سے بچائے رکھے اور یہ وطن عزیز بانیانِ پاکستان کی امنگوں‘ آدرشوں کے مطابق جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بن کر اقوام عالم میں سر بلند ہو۔