قائد اعظم محمد علی جناح 25دسمبر 1876کو پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام پونجا جناح تھا آپ کی پیدائش پر آپ کا نام محمد علی رکھا گیا ۔ والدین نے آپ کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام کیا جس کے لیے آپ کو چھ سال کی عمر میں مدرسے میں داخل کیا گیا بعد میں ابتدائی تعلیم کے لیے گوگل داس پرائمری سکول داخل کیا گیا اس کے بعد سندھ مدرسہ سے پندرہ سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کیا 1892میں وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے لندن چلے گئے 1896میں بیرسٹر بنے جس کے بعد آپ لند ن سے کراچی واپس تشریف لے گے 1902میںوکالت کے سلسلے میں آپ بمبی تشریف لے گئے اور یہاں قائد اعظم محمد علی جناح نے سخت مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود بہت حوصلہ اور بہادری کے ساتھ کام کیا قائداعظم نے دسمبر 1904میں بمبی میں کانگریس کے بیسویں سالانہ اجلاس میں شرکت کر کے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے 1906میں آل انڈیا کانگریس میں شمیولیت اختیار کی ۔
محمد علی جناح 60 رکنی امپیریل مشتاورتی کونسل کے ممبر بن گے قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے بڑھے سرگرم تھے اس سلسلے میں انہوں نے کم عمر ی کی شادی اور مسلمانوں کے وقف کے حق کو قانونی شکل دینے کے لیے کام کرتے رہے 1913میں محمد علی جوہراور سید وزیر حسن اور دیگر مسلم قیادت آپ کو مسلم لیگ میں شمولیت پر آمادہ کیا ۔لیکن چونکہ اس وقت تک مسلم لیگ بڑے نوابوںکی جماعت تھی اس لیے آپ کا رجحان کانگریس کی طرف رہا جس کے لیے آپ نے مسلم لیگ اور کانگریس کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں مثیاق لکھنو ہوا محمد علی جناح ان دونوں جماعتوں میں اتحاد کے علمبدار کی حیثت حاصل تھی پہلی جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد برطانوی حکومت اپنے وعدوں سے منحرف ہو کر رولٹا ایکٹ جیسا قانون نافذ کر کے سیاسی اور سماجی سرگرمیوں پر پاپندی لگا دی ۔جس سے سارے برصغیر میں تحریک شروع ہوگی اور حکومت نے مارشل لاء نافذ کر دیا اس تحریک کی قیادت مسٹر گاندھی نے کی آپ نے کانگریس میں اس کی مخالفت کی آخر یہ تحریک ناکام ہوگئی 1920میں قائداعظم کانگریس سے ہندو کی ذہنیت کو سمجھتے ہوئے الگ ہوگئے 1930میں لندن میں دوسری گول میز کانفرنس میں شریک ہوئے اس میں علامہ محمد اقبال بھی شریک تھے جنہوں نے 1930میں مسلم لیگ کے اجلاس آلہ آباد میں اپنا خطبہ صدرات میں ایک متحد ہ اسلامی ریاست کے قیام کی نشاندہی کی اس کے بعد دو رہنماوں کی ملاقاتیں ہوئی جس میں علامہ اقبال نے اپنے نقطہ نظر کی مزید وضاحت کی قائد اعظم برصغیر کی سیاست سے بیزار ہو کر واپس انگلستان چلے گئے 1933میں لیاقت علی خان جب لندن آئے انہوں نے قائداعظم سے ملاقات کی اور برصغیر آکر مسلمانوں کی قیادت کرنے کی درخواست کی اس پر آپ 1934میں برصغیر تشریف لائے یہاں آکر آپ نے مسلم لیگ کو با حثیت جماعت متحرک اور منظم کیا ۔قائداعظم محمد علی جناح 1935میں بمبی کے مسلم لیگ کے اجلاس پارٹی کو منظم کرنے کے اختیار دیے گئے جس پر آ پ نے تمام برصغیر کا دورہ کیا ۔اس دورے کے دوران آپ نے مسلمانوں کو آنے والے خطرات اور اس سے نمٹنے کے لیے تیار کیا ۔
27مئی 1937کو قائداعظم کے نام اپنے ایک خط میں علامہ اقبال نے اس بات کا اظہار بھی فرمایا کہ اسلام کے لیے سوشل ڈیموکریسی کی کسی شکل میں ترویج جب اسے شریعت کی تائید ومدافعت حاصل ہو حقیقت میں کوئی انقلاب نہیں بلکہ اس کی حقیقی پاکیزگی کی طرف رجوع کرنا ہوگا ۔مسائل حاضرہ کا حل مسلمانوں کے لیے ہندووں سے کہیں زیادہ آسان ہے لیکن جیسا کہ پہلے عرض چکاہوں کہ اسلامی ہندوستان میں ان مسائل کا حل آسانی سے رائج کرنے کے لیے ملک کی تقسیم کی ذریعے اسلامی ریاست کا قیام اشد ضروری ہے ۔برصغیر کی ملت اسلامیہ کا قافلہ جو اٹھارہویں صدی سے اپنی بقاء اور تہذیبی اثاثوں کے تحفظ کے لیے بھٹک رہا تھا اور تقریبا ڈیڑھ صدی سے اپنی منزل کے تعین کے باوجود سفر کی حکمت عملی سے بے خبر اور راستے کی ہر پکڈنڈی کو اپنے رہنماوں کی پسندی کے سہارے طے کرتے ہوئے کہولو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں گردش کر رہا تھا اور صورتحال یہ تھی پوری ملت اسلامیہ برصیغر اسلام کے ساتھ پوری وابستگی اور مکمل خود سپردگی کے باوجود قیادت کے فقدان کا شکار تھی اس کا حال اس راہرو کا ساتھا جس کی تصویر اس شعر میں نظر آتی ہے کہ چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھپہچانتا نہیں ہوں ابھی را ہبر کو میںپھر اللہ تعالی کی مہربان ہوئے مایوسی کے ان لمحات میں کہ جو تحریک خلافت کے ناکام ہونے کے بعد 1924سے 1936تک ملت اسلامیہ پر طاری تھے روشنی کی ایک کرن پھوٹی اور 1908کی مسلم لیگ جوبڑے لوگوں کی جماعت سمجھی جاتی تھی .قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانان برصغیر کی آنکھوں کا تارا بن گئی اور اس طرح ملت کا دل افسردہ اور پاشکستہ قافلہ سخت جاں جوا گرچہ تھا تو عشق کی وادی ہی ہیں مگر رہنماوں کی رہنماوں کی جلد بازیوں سے دلبرداشتہ ہو کے کچھ کچھ حوصلہ ہار بیٹھا تھا دوبارہ کمر بستہ ہوا اور ایک تازہ ولولے کے ساتھ قائد اعظم کی رہنمائی میں راس کماری سے لے کر پشاور تک رواں دواں ہو گیا وہ مسلمان ملت برصغیر جس میں شرح خواندگی تین فیصد سے بھی کم تھی ۔مگر دنیاوی اعتبار سے وہی سادہ اور نا خواندہ مسلمانوں نے جو سامراجی قوتوں کے ستائے ہوئے اور ہندوں کی تنگ نظری چھوت چھات کے ذلت آمیز رویوں اور سودی ناانصافیوں کا شکار تھے انہوں نے تاریخ کا وہ عظیم الشان سفر اپنے عظیم قائد کے ساتھ طے کیا اور پوری دنیا کو حیران کر دیا جس نے اقوام عالم کی تاریخ میں بالکل ہی نئے اور انوکھے انداز انقلاب کا آغاز کر دیا ۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے مختلف تقاریر کے ان اقتباسات طرف رجوع کر تے ہیں جو آج تاریخ کا سرمایہ ہیں اور ملت اسلامیہ پاکستان کے لیے پاکستان کی ترقی بقااور خوشحالی کا رہنما اثاثہ بھی23مارچ 1940کے اجلاس میں جب قرار داد منظور ہوئی ۔قائد اعظم نے فرمایا اسلام اور ہندو دھرم محض مذہب نہیں درحقیت دو مختلف معاشرتی نظام ہیں اس لیے خواہش کو خواب و خیال ہی کہنا چاہیے کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک مشترکہ قومیت کی تشکیل کر سکیں گے ظاہر ہے کہ پاکستان کسی فوجی مہم جوئی کے ذریعے وجود میں نہیں آیا اور نہ ہی کسی نے اسے بزور طاقت اور بذریعہ ہتھیار حاصل کیا بلکہ ووٹ کے ذریعے بننے والی دنیا کی تاریخ کی واحد منفرد ریاست ہے 20مارچ 1941کو قائد اعظم نے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا خوب یاد رکھے !یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے یہ سلطنت مغلیہ کے زوال سے لیکر اب تک سب سے بڑا کام ہے جو آپ نے اپنے ذمے لیا ہے اچھی طرح سمجھ لیجے کہ منزل تک پہنچنے کے لیے تمام وسائل کو کام میں لانا پڑے گا ہر ممکن طریقے سے مکمل تیاری کرنی پڑے گی 15 نومبر1942 ء کے قائداعظم کے بصیرت افروز اور چشم کش خطاب میں بھی آپ نے فرمایا کہ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہو گا ؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن مجید میں ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا ۔
یہ ہیں ہمارے قائداعظم محمد علی جناح جن کو جھوٹ سے نفرت ہے اور وہ کسی بھی دباؤ میں آکر اپنی رائے کے اظہار میں کبھی بھی کسی مداہنت سے کام نہیں لیتے آج پھر اس ملت پاکستان کو ایک ایسے ہی رہنما ء کی ضرورت ہے یہ قوم پھر اس رہنما کو مایوس نہیں کریں گی 6 دسمبر1943 ء کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے خطاب کے دوران قائداعظم نے فرمایاوہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے وہ کون سا لنگر ہے جس نے امت کی کشتی محفوظ کر دی گی ہے وہ رشتہ ،وہ چٹان ،وہ لنگر، اللہ کی کتاب قرآن کریم ہے مجھے امید ہے کہ جوں جو ںہم آگے بڑھتے جائیں گے قرآن مجید کی برکت سے زیادہ سے زیادہ اتحادپیدا ہوتا جائے گا ایک خدا، ایک کتاب ، ایک رسول ، ایک امتقائداعظم کا یہ خطاب کسی تبصرے یا وضاحت کا محتاج نہیں اس کا لفظ لفظ تو پکار رہا ہے کہ یہ بات کہنے والا امت کے حقیقی تصور سے بھی آشنا ہے اور خدا ، کتاب اور رسول کو مان لینے کے لازمی نتائج سے بھی باخبر ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قائداعظم کا یوم پیدائش منانے کے لیے اپنے قائد کے ہر فرمان کو بھی مانے اور اپنی نسل کو بھی اپنے قائد کی روشن سیرت و کردار سے متعارف کروائیں اگر ہمارے رہنماء اور قوم قائداعظم جیسی سیرت و کردار کا مظاہرہ کریں تو ہم آج بھی سرخرو ہو سکتے ہیں۔