کراچی (رپورٹ : ابو نوال) معروف صحافی الطاف حسن قریشی نے جسارت کے سوال ـ”قائد ِ اعظم کے تصور کے مطابق پاستان کو اسلامی فلاحی ریاست کیوں نہیں بنایا جاسکا ہے ؟ کے جوا ب میں کہا کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ حکمرانوںنے رکاوٹ ڈال رکھی ہے ۔ قائد اعظم کی ہر سالگرہ پر یہ سوال اُٹھایا جا تا ہے پاکستان میں قائد اسلامی نظام کے حامی تھے یا لبرل ازم کے حامی تھے ۔ اس بحث کے بعد ملک میں ’’مفاد پرستی کا راج‘‘ قائم کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان اسلام پسندوں اور لبرلز کے مابین شاید پہلے کبھی بھی اتنا منقسم نہیں تھا، جتنا کہ آج ہے۔ پاکستانی ریاست کیسی ہونی چالیے؟ سیکولر یا اسلامی ؟ بانی پاکستان محمد علی جناح سمجھتے تھے کہ پاکستان کو ایک اسلامی اور فلاحی ریاست بنانا ہے۔ جناح مسلم اکثریت والا ایک ایسا ملک بنانے کی خواہش رکھتے تھے، جہاں دیگر اقلیتوں کو بھی برابری کے حقوق حاصل ہوں؟ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں کے رہنماؤ ں نے برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے عشروں بعد بھی واضح نہیں کیا کہ پاکستان کو کس طرح کا ہونا چاہیے؟ اس کی تمام تر ذمے داری حکمرانوںکی ہے اور ملک کے حکمرانوں نے عوام کے خواہش کو پامال کرتے ہوئے ملک کو ہر طرح کے نظام سے آزاد کر دیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔اسی
وجہ سے پاکستان اسلامی اور فلاحی ریاست نہیں بن سکا ۔ صحافی بلقیس ریاض نے جسارت کے سوال کے جوا ب میں کہا کہ پاکستان کو اسلامی اور فلاحی ملک بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ملک اشرافیہ ہے ۔پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت ملک میں سیکولرازم اور مغربی طرز زندگی کے مخالف ہیں لیکن اشرافیہ ملک کو مغربی حکمرانوں کا غلام بنانے میں مصروف ہے۔ پاکستان کی عوام قائد اعظم کی سوچ کے مطابق ملک کے عوام ملک کو اسلامی فلاحی ریاست کے کل بھی حامی اور آج بھی حامی لیکن حکمران ملک کو اسلامی فلاحی ملک بنانے سے انکاری ہیں۔ محمد علی جناح ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک ایسا ملک چاہتے تھے ، جہاں اسلامی نظام شرعی کا نفاذ کیا جاسکے۔ پاکستانی حکمران بھی گزشتہ 7 دہائیوں سے اسی نظریے کی تائید کرتے آئے ہیں اور کسی نہ کسی طریقے سے اسی کا پرچار کیا جاتا رہا ہے لیکن عمل کر نے سے انکاری نظر آتے ہیں۔ نوائے وقت کے سابق ایڈیٹر سجادمیر نے جسارت کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے حکمرانوں کو اسلامی فلاحی نظام سے ڈر لگتا ہے۔ حکمران ملک کے عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے پاکستان کو ایک جدید سیکولر یا پھر اسلامی ریاست ہونا چاہیے کی بحث گزشتہ چند برسوں سے تیز ہوتی جا رہی ہے۔ اسلامی اور سیکولر پاکستانی دونوں ہی طبقے اپنے خیالات کی حمایت میں جناح کی تقاریر اور تحریروں کے حوالہ دیتے ہیں۔