صدیق الفاروق کی موت سے ان کے طالب علم راہنماء سے صحافت اور پھر سیاست کا سفر بھی تمام ہوا، صدیق الفاروق بنیادی طور پر صحافی تھے لیکن انہیں سیاست میں حصہ لینے کا شوق چرایا، جہاں انہیں نام تو مل گیا، لیکن جو سکون انہیں کم تنخواہ والی صحافت میں تھا، وہ ان سے چھن گیا۔ غریب خاندان سے تعلق ہونا کوئی جرم نہیں لیکن کسی غریب کارکن کا سیاست میں اگلی صف میں بیٹھنے کی خواہش کرنا آج کل ایک جرم ضرور بن چکا ہے یا جرم سمجھا جاتا ہے۔ اگر صدیق الفاروق صحافی ہی رہتے تو شاید سیاسی جماعتوں میں عہدوں کی کھینچا تانی اور قیادت کا اعتماد حاصل کرنے کی دوڑ کی ٹینشن کا شکار نہ ہوتے۔ مرحوم سے علیک سلیک تو بہت پرانی تھی تاہم پہلی اور مختصر سی ملاقات نواز شریف حکومت کے خلاف بے نظیر بھٹو کے لانگ مارچ کے دنوں میں ہوئی تھی، اس کے بعد ان سے مسلسل رابطہ رہا، انہوں نے میڈیا کا محاذ سنبھالا ہوا تھا اور بے نظیر بھٹو حکومت کے اسکینڈلز کی دستاویزات پریس کو مہیا کیا کرتے تھے۔ بے نظیر بھٹو کے تین سال حکومت اور اپوزیشن کے مابین تلخیوں کے سال تھے، صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں بے نظیر بھٹو حکومت ختم ہوئی تو ملک میں انتخابات ہوئے، جن میں مسلم لیگ (ن) دو تہائی اکثریت کے ساتھ وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ صدیق الفاروق اس وقت بھی نواز شریف کے ساتھ تھے بلکہ قابل اعتماد ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے، ان کے لیے ان کے خیر خواہوں نے پی ٹی وی کے چیئرمین شپ کے لیے سفارش کی لیکن نواز شریف نے یہ سفارش نہیں مانی، سینیٹر پرویز رشید کو پی ٹی وی کا چیئرمین بنادیا، اس کے باوجود صدیق الفاروق نے ہمت نہ ہاری اور مسلم لیگ (ن) میں ہی رہے، پھر انہیں بڑے میاں صاحب (میاں شریف) کی سفارش پر ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا چیئرمین بنایا گیا۔
اکتوبر 1999 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوگئی، فرائیڈے اسپیشل کے ریکارڈ پر یہ موجود ہے کہ اپریل 1999 میں یہ لکھا گیا کہ شریف حکومت اکتوبر میں ختم ہوجائے گی، جب پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو شریف خاندان سمیت متعدد مسلم لیگی راہنماء قید اور نظر بند کیے گئے، ایک سال کے بعد دسمبر 2000 میں نواز شریف ایک معاہدے کے تحت اپنے خاندان کے ہمراہ جدہ چلے گئے، اور جاوید ہاشمی مسلم لیگ (ن) کے قائم مقام صدر بنائے گئے، نواز شریف کے ملک سے باہر جانے اور جاوید ہاشمی کے صدر بنائے جانے کی پیش گوئی، نواز شریف کے فوٹو گرافر ذوالفقار بلتی مرحوم ان کے جدہ جانے سے کچھ ماہ قبل کرچکے تھے، نے جب یہ بات قبلہ سید سعود ساحر کو بتائی تو شاہ صاحب نے کہا کہ ’’بلتی میں جانتا ہوں کہ آپ کس قدر ولی اللہ ہیں، آپ صحیح صحیح بتائو یہ بات کس حد تک سچ ہے‘‘ بلتی، شاہ صاحب کی بات بلکہ ڈانٹ ڈپٹ پر مسکرائے اور اور کہا شاہ بس آپ دیکھتے جائیں۔ جاوید ہاشمی کے دور میں صدیق الفاروق کے لیے پارٹی میں کچھ آسانی رہی، پھر ایک وقت ایسا بھی آیا انہوں نے قاضی جاوید اشرف کے خلاف ریلوے میں بدعنوانیوں پر مشتمل ایک رپورٹ پریس کو جاری کی، اس کے کچھ عرصہ کے بعد وہ لاپتا ہوگئے، اور وہ لوگ انہیں ایک دور دراز مقام پر چھوڑ کر چلے گئے، یوں ان کی ’’رہائی‘‘ ہوئی، انہیں نیب نے بھی گرفتار کیا اور گرفتار کرکے بھول گئے۔ عدالت عظمیٰ میں جب ان کی رہائی کے لیے رٹ دائر کی گئی تو نیب کے چیف پراسیکیوٹر فاروق آدم عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہم تو انہیں گرفتار کرنے کے بعد بھول ہی گئے تھے۔
نواز شریف کے دل میں جگہ پیدا کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے، بہر حال و قت کچھ اور آگے بڑھا تو ملک میں عام انتخابات ہوئے، مسلم لیگ(ن) نے کسمپرسی کے عالم عام انتخابات میں حصہ لیا اور ایک بڑا گروپ اسمبلی میں جاپہنچا، کچھ عرصہ کے بعد جاوید ہاشمی نے ایک نہ معلوم خط کی بنیاد پر پریس کانفرنس کی، جس کی فوٹو کاپیاں صدیق الفاروق اور پیپلزپارٹی کے ابن رضوی لائے، اس وقت مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اے آر ڈی میں شامل تھیں، یہ خط پیپلزپارٹی کی ایک خاتون رکن قومی اسمبلی کے نام آیا تھا، پریس کانفرنس پارلیمنٹ ہائوس کے کیفے ٹیریا میں ہوئی، اس کی پاداش میں جاوید ہاشمی گرفتار ہوگئے، ان کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی، چودھری نثار علی خان کی سپرداری میں آگئی، یہاں ایک بار پھر صدیق الفاروق کے لیے کڑا وقت شروع ہوگیا اسی زمانے میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ صدیق الفاروق پارٹی چھوڑنے اور سیاست کو خیر باد کہنے پر تیار یا مجبور ہوگئے اور گھر جا کر بیٹھ گئے تاہم انہیں راولپنڈی مسلم لیگ(ن) کے کارکن الیاس سبحانی اور دیگر ان کے گھر جا کر منا کر واپس لے آئے، انہوں نے اس کام کے لیے راجا محمد ظفر الحق سے بھی مدد اور راہنمائی لی۔
صدیق الفاروق دراصل پارٹی میں دو محازوں پر لڑتے رہے مسلم لیگی کارکنوں کی پر زور اپیل پر وہ پارٹی میں اپنی ذمے داری پر واپس تو آئے، لیکن ان کا دل بھجا بجھا سا رہا، کہ اتنی قربانیوں، وفا شعاری کے باوجود بھی اگر پارٹی میں کوئی اہمیت نہیں مل رہی تو بہتر ہے کہ کام ہی نہ کیا جائے، اسی دوران مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے ان سے ذمے داری واپس لے کر پروفیسر احسن اقبال کے سپرد کردی، مرحوم نہایت ہی اچھے انسان تھے، تاہم مزاج میں کبھی کبھی سختی بھی دیکھی، وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال کی والد محترمہ، مولانا احسن اصلاحی کی صاحب زادی، محترمہ آپا نثار فاطمہ کو صدیق الفاروق نے بطور صحافی بہت کوریج دی اور انہیں خبروں کی زینت بنائے رکھا، اور ان کی خوب تشہیر کی، لیکن جب مسلم لیگ(ن) نے انہیں پارٹی منصب سے الگ کیا گیا تو احسن اقبال ہی نے ان کی جگہ لی، غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں کے ساتھ ایسا سلوک کوئی نئی بات نہیں، اور مسلم لیگ(ن) کے لیے تو بالکل بھی نہیں، یہ سبھی سیاسی جماعتوں کے مسائل ہیں، جہاں کام کرنے والے کارکن کو ہمیشہ دکھ سہنے والی بی فاختہ ہی سمجھا جاتا ہے، آج اگرچہ مسلم لیگ(ن) وفاق اور پنجاب میں حکومت میں ہے لیکن اس کے باوجود کام کرنے والے کارکن مایوس ہیں، بلکہ راولپنڈی سے اس کے متعدد مخلص کارکن، جن میں انعام ظفر، ثمینہ شعیب، نذیر کشمیری اور چودھری نواز الحق کی فیملی کے بیش تر لوگ پارٹی کو خیر باد کہہ چکے ہیں، پارٹی میں اب انہیں اہمیت مل رہی ہے جو زیادہ خوشامد کرسکتا ہے، یا جس کے پاس زیادہ پیسا ہے، عین ممکن ہے کہ جو لوگ اس وقت مسلم لیگ(ن) چھوڑ رہے ہیں یہ کل کو شاہد خاقان عباسی کی پارٹی میں چلے جائیں، اور ان کے ساتھ سیکڑوں کارکن بھی مسلم لیگ(ن) چھوڑ کر شاہد خاقان عباسی کے ساتھ جاسکتے ہیں۔ بس صدیق الفاروق کی موت جس کسمپرسی کی حالت میںہوئی اتنا ہی کہنا ہے کہ ایک صحافی جو طبقاتی، خوشامدی اور مفاداتی سیاست کی نذر ہوگیا، مرحوم صحافی ہی رہتے تو اچھا تھا۔