معروف تجزیہ نگار نجم سیٹھی نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا میں آنے والی حالیہ تبدیلی کے بعد اگلے برس یعنی 2025 ٹرمپ انتظامیہ کی کوشش ہو گی کہ ایران میں رجیم چینج کا منصوبہ روبہ عمل لایا جائے۔ اس منصوبے کی کامیابی کے بعد 2026 میں امریکا اور اسرائیل پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی طرف متوجہ ہوں گے۔ نجم سیٹھی کے اس دعوے میں بظاہر تو انکشاف والی کوئی بات نہیں کیونکہ ایران کا موجودہ نظام اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام دو ایسے معاملات ہیں جن سے امریکا کو بظاہر کوئی خطرہ نہیں مگر امریکا کے اتحادیوں اور تزویراتی شراکت داروں کو ان دونوں باتوں سے ہمیشہ خوف محسوس ہوتا رہا ہے۔ اسرائیل ایران کے موجودہ سسٹم کو روز اوّل سے اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ اسرائیل نے برسوں کی کوشش اور محنت کے بعد مشرق وسطیٰ میں اپنی راہ کا ہر کانٹا چننے میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور اب ایران اس راہ کی واحد رکاوٹ ہے۔ ایران اسرائیل کے خلاف عملی اقدام نہ بھی کرے تب بھی اپنی جنگی تیاریوں اور اپنے تلخ وتُرش بیانات کے ذریعے وہ خطے میں اسرائیل کی نفسیاتی بالادستی قائم ہونے کی راہ میں مزاحم ہے۔ اعصاب کی جنگ میں توپ وتفنگ کی طرح نفسیاتی حربے بھی کم اہم نہیں ہوتے۔ ایران جب اسرائیل کے خلاف بیانات جاری کرتا ہے تو اس سے عرب وفارس کی رائے عامہ میں ایک امید سے بندھ جاتی ہے اور اس سے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا نفسیاتی تاثر زائل نہیں تو کمزور ضرور ہوتا ہے۔
امریکا انقلاب ایران کے بعد ہی سے ایران کے موجودہ نظام سے ناراض ہوکر بیٹھا ہے۔ جب بھی اُسے موقع ملتا ہے وہ ایران میں عوامی جذبات کی دبی ہوئی چنگاری کو ہوا دے کر شعلوں میں بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔ حماس، حوثی، حزب اللہ اور حافظ الاسد خطے میں ایران کے وہ پر تھے جن کے ذریعے وہ اپنے پرواز جاری رکھے ہوئے تھا۔ رواں کشمکش میں ان تینوں کو خاصا نقصان پہنچ چکا ہے۔ ایران کے بال وپر باہر سے کترے نہیں گئے بلکہ ایرانی سسٹم کے اندر بھی بڑی حد تک نقب لگایا جا چکا ہے۔ جس کی مثال ایران کے بیرونی پروجیکٹس کے پرجوش حامی جنرل قاسم سلیمانی، معروف ایٹمی سائنس دان محسن فخری زادہ، صدر ابراہیم رئیسی اور حماس لیڈر اسماعیل ہنیہ کے قتل ہیں۔ ان تمام وارداتوں میں ایران کے اندرونی نظام کے کچھ عناصر کے کردار کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ معروف پاکستانی اسکالر علامہ جواد حسین نقوی نے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا ہے کہ ایران کے اندر دو سوچوں کی ایک کشمکش موجود ہے۔ جن میں ایک سوچ یہ ہے کہ ایران کو اپنے باہر کی زیادہ فکر کرنے کے بجائے اپنے عوام کے مسائل اور معاملات پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ سوچ اب اس قدر مضبوط ہو چکی ہے کہ کبھی کبھار اپنا صدر تک منتخب کرانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی کو اسی سوچ کا عکاس کہا جاتا رہا ہے۔ یہ سوچ ’’سب سے پہلے ایران ‘‘ پر یقین رکھتی ہے۔ یہ انقلابیوں کے تصورات کے قطعی برعکس ہے جنہوں نے انقلاب کے ابتدائے سفر ہی میں اسے برآمد کرنے کا نعرہ لگایا تھا۔
ایران نے برسوں امریکا کے سفارتی دبائو اور اقتصادی پابندیوں کا سامنا کیا مگر اب اس کے سسٹم کے اندر سرایت کرجانے والی سوچ اور اس کے اظہار کے مختلف واقعات میں خطرے کی گھنٹی ہے۔ دو ڈھائی برس قبل ایران میں جبہ ودستار کے خلاف جو عوامی لہر چلی تھی وہ روایتی نظام سے نسل نوکی بیزاری ہی کا ثبوت تھی۔ شاید ایران کی نوجوان نسل یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ انہیں عالمی سطح پر تنہائی کا شکار بنانے کے علاوہ قومی مفاد اور علما کے احترام کے نام پر اپنے جذبات کے اظہار سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ ان خالص داخلی جذبات کو ہوا دینے کے لیے بیرونی طاقتیں تاک میں ہوتی ہیں اور جبہ ودستار کے خلاف تحریک سے بھی بیرونی قوتوں نے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی مگر ایران کا روایتی نظام اس لہر کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب امریکا اپنے اہم ترین شراکت دار کی راہ کے آخری روڑے کو ہٹانے کے لیے کیا طریقہ اختیار کرتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آتا جائے گا۔
ایران کے موجودہ نظام کی طرح پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے ساتھ امریکا کی مخاصمت کا رشتہ بھی دہائیوں پرانا ہے۔ انقلاب ایران کی طرح پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے ساتھ بھی روز اوّل ہی سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نہ بن سکی۔ امریکا نے اس پروگرام کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے کان میں ہنری کسنجر کے ذریعے جو بات ڈالی تھی بعد میں اس ’’تارہ مسیح‘‘ نامی جلاد نے لیور کھینچ کر اس پر عمل درآمد بھی کر دیا تھا۔ اس پروگرام کی سرپرستی کرنے والے شاہ فیصل اور اس کی مالی مدد کرنے والے معمر قذافی دونوں ایک طویل وقفے سے اپنے اپنے جلادوں کے ہاتھوں غیر طبی انجام کا شکار ہوئے۔ شاہ فیصل کے قریبی رشتہ دار کو ان پر بالکل اسی طرح اچانک غصہ آگیا جس طرح سید اکبر کو لیاقت علی خان کے برادران اسلام کہنے پر غصہ آگیا تھا اور اس نے بھرے جلسے میں ان پر گولیاں برسا دی تھیں۔ اس سے لگتا ہے کہ غصہ یوں بے سبب تو نہیں آتا کوئی وجہ ہوتی ہے کہ کسی انسان کے جذبات بھڑک اُٹھتے ہیں۔ روز اوّل سے امریکی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا تعاقب کرتے رہے۔ یہاں تک ایک امریکی اہلکار رابرٹ گیٹس نے صدر غلام اسحاق خان کے انکارسے زچ ہو کر کہا کہ اپنے کے دالان میں ایک چیز بطخ کی طرح ہی لڑکھڑاتے ہوئے چلتی ہے وہ بطخ جیسی آوازیں نکالتی تو گمان غالب ہے کہ وہ بطخ ہی ہوگی۔ غلام اسحاق خان نے ترنت جواب دیا جب میں کہہ رہا ہوں کہ وہ بطخ نہیں تو پھر آپ کو یقین کر لینا چاہیے کہ وہ بطخ نہیں۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے امریکا پر نگاہِ التفات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب 1985 میں افغان جنگ عروج پر تھی اور پاکستان اس جنگ میں امریکا کا اگلا مورچہ تھا اس کے باجود امریکی کانگریس نے پاکستان کے خلاف پریسلر ترمیم کے ذریعے پابندیاں لگانے سے گریز نہیں کیا تھا۔ یہاں تک کہ امریکا ایف سولہ طیاروں کی رقم بھی دبا کر بیٹھ گیا۔ نائن الیون کے بعد امریکا میں یہ سوچ توانا ہو گئی کہ کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹمی طاقت کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس وقت پاکستان دنیا کی واحد ایٹمی طاقت تھی اور عراق کے بارے میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی جبکہ ایران اور لیبیا کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ جوہری مواد حاصل کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ لیبیا کا ایٹمی مواد ترغیب اور دبائو کے ذریعے حاصل کرلیا گیا۔ ایران کے ساتھ کبھی بات چیت تو کبھی دبائو کا رویہ اپنایا گیا۔ پاکستان کے بارے میں حکمت عملی تبدیل کر دی گئی۔ پاکستان کی معیشت کے ذخیرے میں ایسے گھن چھوڑ دیے گئے جو رفتہ رفتہ یاجوج ماجوج بن کر اس ذخیرے کو چاٹتے چلے گئے اور پاکستان مکمل طور پر آئی ایم ایف کے وینٹی لیٹر پر آگیا۔
پاکستان میں بدعنوانی کے خلاف سخت اقدامات نہ کرکے اور احتساب کے اداروں کو مذاق بنا کر اور منی لانڈرنگ کی سرپرستی کرکے پاکستان کے سسٹم کے اندر سے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے سہولت کاری کی گئی۔ آج پاکستان کے ہم نوا اور دوست سب اس کے کشکول کو خالی لوٹا رہے ہیں دوستوں اور ہمدردوں کا ہر دھکا پاکستان کو آئی ایم ایف کے قریب کرتا جا رہا ہے۔ القاعدہ اور کئی دہشت گرد گروپوں کی لانچنگ کے پیچھے دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کے نیوکلیئر پروگرام کو غیر محفوظ قرار دینے کی سوچ ہی تھی۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لیے عوام بہت جذباتی ہوا کرتے تھے مگر بہت حکمت اور مہارت سے پہلے پاکستان کو معاشی طور پر آئی ایم ایف کے وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا جہاں عوام یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ بھلے سے ایٹمی مواد لے لیں مگر ہمیں روٹی دے دیں۔ آفرین ہے پاکستان کے عوام کو جنہوں نے بدترین معاشی حالات میں بھی یہ مطالبہ نہیں کیا۔ اس کے بعد ایسی حکمت عملی اختیار کی گئی کہ عوام ناراض ہو کر ریاستی معاملات سے الگ تھلگ ہوجائیں۔ جب کسی سسٹم میں عوام کی رائے کی اہمیت نہیں ہوگی اور ان کو سسٹم میں شرکت کا احساس نہیں ہوگا تو پھر وہ ہر کھیل کو پیٹ بھروں کا کرتب ان کی کوئی چال سمجھ کر معاملات سے لاتعلق ہوجاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ پاکستان کو اسی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔