شام میں آنے والی رات یا امید سحر

199

شام کا سرکاری نام جمہوریہ عربیہ سیریا ہے اس کا رقبہ 7140 مربع میل ہے۔ بیش تر آبادی سنی مسلمانوں کی ہے۔ شیعہ، اسماعیلی، دروز اور عیسائی بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں اس کے مشہور شہر دمشق (دارالحکومت) حلب، حمص اور حماۃ ہیں اور صدیوں سے اسلامی علوم و فنون کے مراکز رہے ہیں۔ قاہرہ کے بعد دمشق دنیائے اسلام کا دوسرا علمی و ثقافتی مرکز ہے۔ شام بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ گندم، جو اور دالیں بکثرت پیدا ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ شکرقند، زیتون اور تمباکو کی کاشت بھی ہوتی ہے یہ ملک ریشمی مصنوعات اور کانچ کے کام کے لیے مشہور ہے۔ گزشتہ برسوں میں دمشق اور حلب میں چھوٹی صنعتوں کے کارخانے قائم ہوئے ہیں۔ عراقی پٹرولیم کمپنی کے پائپ لائن شام سے ہوکر گزرتی ہے جس سے شام کو بھاری رقم رائلٹی کے طور پر ملتی ہے تاریخی اعتبار سے شام ایک قدیم تہذیبی و ثقافتی مرکز ہے۔ اپنی زرخیزی کے باعث یہ سرزمین لٹیرے بددئوں کے لیے ہمیشہ کشش کا باعث رہی۔ دوسری صدی ق۔م کے آغاز ہی میں ان عرب بددئوں نے حمص، تدمر اور الحجر میں اپنی ریاستیں قائم کرلی تھیں۔

آپؐ کی وفات تک رومیوں کے حملے کا خطرہ رہتا تھا۔ اس خطرے کے انسداد اور شہدائے موتہ کے انتقام کے لیے آپؐ نے اسامہ بن زید کو شام بھیجنے کا ارادہ کیا تھا کہ آپؐ کی وفات ہوگئی۔ اس لیے 13ھ میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کبار صحابہ کے مشورے پر شام پر فوج کشی کا فیصلہ کیا۔ دمشق کی مہم پر یزید بن ابن ابی سفیان، حمص پر ابو عبیدہ بن الضراح، اردن پر شرجیل بن حسنہ اور فلسطین پر عمرو بن العاص مقرر ہوئے۔ سیدنا ابوعبیدہؓ ان سب کے سالار مقرر ہوئے۔ بازنطینی افواج کی کثرت کا اندازہ کرتے ہوئے سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے سیدنا خالد بن ولیدؓ کو جو اس وقت عراق میں تھے حکم دیا کہ وہ شام چلے جائیں۔ مارچ 635ء میں عربوں نے چمشق کی دیواروں کے زیر سایہ ڈیرے ڈال دیے۔ لڑائی میں شامی عربوں نے رومی شہنشاہ کی افواج کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اس لیے انہیں مکمل طور پر شکست ہوئی۔ جنگ یرموک (636ء) نے شام کی قسمت کا فیصلہ کردیا اور کئی علاقے بغیر تلوار اٹھائے فتح ہوتے چلے گئے۔ ہجری اٹھارواں سال عموماً طاعون کی وبا پھیلنے کے لیے مشہور ہے اس میں ہزاروں مسلمان لقمہ اجل ہوئے۔ سیدنا عمرؓ نے شام کا سفر کیا اور مناسب اقدامات کیے۔ یزید بن ابو سفیان کا انتقال ہوا تو سیدنا عمرؓ نے امیر معاویہ کو ان کی جگہ حاکم مقرر کیا اور سیدنا عثمانؓ نے اپنے عہد خلافت میں انہیں پورے شام کا والی بنا دیا۔ امیر معاویہ نے شام کے سرحدی علاقے فتح کرکے اس کی سرحدوں کو وسعت دی سیدنا عثمانؓ کی اجازت سے امیر معاویہ نے ایک بحری بیڑہ بھی تیار کیا اور اس کے ذریعے جزیرہ قبرس فتح کیا۔

29 اکتوبر 1914 کو ترکیہ جنگ عظیم میں شامل ہوگیا۔ جمال پاشا (ترکی) نے سارے شام کی عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی اور بہت سے عرب قوم پرست رہنمائوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ وہ نہر سویز پر حملہ کرنے کے لیے بڑھا لیکن ناکام رہا اور دھیرے دھیرے انگریزوں نے بزور قوت ملک پر قبضہ کرلیا اور فرانسیسی امدادی فوج نے بھی شام کی طرف اپنے قدم جمالیے۔ 24 جولائی 1920 میں فرانسیسی دمشق میں داخل ہوگئے۔ ایک معاہدے کے تحت شام کو ترکیہ سے علٰیحدہ کردیا گیا۔ آہستہ آہستہ شامی عوام کو یہ محسوس ہونے لگا کہ فرانسیسی اقتدار ترکی حکومت کے مقابلے میں زیادہ سخت گیر ہے۔ آخر کار تنگ آمد بہ جنگ آمد ہڑتالوں اور بغاوتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ بغاوتیں 1925 کی عام بغاوت کا باعث بنی۔ فرانسیسیوں نے اڑتالیس گھنٹے تک دمشق پر گولہ باری کی۔ ان کے اس اقدام کو دنیا بھر میں غم و غصہ کی نظر سے دیکھا گیا۔ آخر کار ایک سمجھوتے کے تحت 17 اپریل 1946 کو تمام فرانسیسی فوجیں شام سے ہمیشہ کے لیے نکل گئیں۔ اب شکری القواتلی کی رہنمائی میں آزادی کا سفر شروع کیا۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام نے عالم عرب میں ہیجان پیدا کردیا۔ عرب ممالک جن میں شام بھی شامل تھا نے اسرائیل کے خلاف

ناکام پیش قدمی کی، اس دوران شام کے حالات بگڑتے چلے گئے اس سیاسی خلفشار کے پیش نظر یکم فروری 1958 میں قاہرہ سے دو ملکوں مصر اور شام کے اتحاد کا اعلان ہوگیا اس کا نام ’’جمہوریہ متحدہ عرب‘‘ لکھا گیا اور جمال عبدالناصر اس کے صدر منتخب ہوئے۔ لیکن مصریوں کی بالادستی کے باعث یہ اتحاد برقرار نہ رہ سکا۔ اور 28 ستمبر 1961 میں شامیوں نے مصریوں کو شام سے علٰیحدگی پر مجبور کردیا۔ 1990 میں شام نے کویت پر عراق کے حملے کے خلاف آواز بلند کی اور سعودی عرب پر عراق کے ممکنہ حملے کے پیش نظر سعودی عرب کی مدد کے لیے اپنی فوج روانہ کی۔ خلیجی جنگ کے بعد اسرائیل سے امن مذاکرات کی امید قائم ہوئی جو پوری نہ ہو سکی۔ حافظ الاسد چوتھی مرتبہ صدارتی انتخابات میں کامیاب ہوئے۔ وہ 1971 سے 2000 تک یعنی 29 سال برسر اقتدار رہے۔ 2000 میں ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے بشار الاسد برسر اقتدار ہوئے اور وہ 2024 تک یعنی 24 سال اقتدار پر رہے۔ اس طرح 53 سالہ اقلیتی فرقے علوی اقتدار کا سورج اس وقت غروب ہو گیا جب بشار الاسد نے شام سے فرار ہوکر روس میں پناہ لی۔ یہ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کا دوسرا واقعہ ہے اس سے پہلے بنگلا دیش کی حسینہ واجد نے فرار ہوکر ہندوستان میں پناہ لی یہ دونوں حکمران عوامی تحریک کے نتیجے میں ملک سے فرار ہوئے۔

شام میں 80 فی صد سنی العقیدہ لوگ رہتے ہیں سابق علوی فرقے کے اسدوں نے اپنے سیاسی مخالفین پر بے پناہ تشدد کیے پورے پورے خاندان کو عورتوں اور بچوں سمیت جیل کی کال کوٹھری میں اس طرح ڈالا کہ کہیں ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور وہ برسوں جیلوں میں پڑے سڑتے رہے، یہ جو نئے انقلابی رہنمائوں نے جب جیل کے دروزے توڑے ہیں اور جو لوگ بیس یا تیس برس کی قید کاٹ کر نکلے تو انہیں یقین نہیں آرہا تھا اس لیے کہ باہر کی دنیا سے وہ بے خبر تھے۔ جیل کے دروازے کھولنے والے اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟ یہ جو تبدیلی آئی ہے اس کے لانے والے اتنے باختیار ہوں گے کہ شام میں اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت کا قیام ممکن ہوسکے۔ ایسا ہوتا نظر تو نہیں آتا کہ ملک شام بڑی طاقتوں کی کشمکش کا مرکز بن چکا ہے۔ شام کے حوالے سے جتنے مضامین نظر سے گزرے ہیں اس سے تو یہ لگتا ہے کہ جس طرح ہم نے ملک پاکستان بناتے وقت یہ خواب دیکھا تھا یا دکھایا گیا تھا کہ یہ ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت ہوگی یہاں امن ہوگا انصاف ہوگا معاشی آسودگی ہوگی کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا کرپشن سے پاک ملک ہوگا لیکن بعد میں یہ سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔ جس طرح ہم نے سمجھا تھا کہ افغانستان سے امریکا کے جانے کے بعد جو طالبان کی حکومت ہوگی وہ پاکستان دوست ہوگی ہماری اس سرحد پر امن و سکون ہوگا، افغانستان سے ٹھنڈی ہوائیں آئیں گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ پاکستان میں دہشت گردی پہلے سے بڑھ گئی اور ہمار ی پولیس، رینجرز اور فوج کے سپاہی مسلسل اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں، وہ جیسے ایک شعر کچھ جو یوں ہے کہ:

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

بالکل اسی طرح کے اندیشے ملک شام کے حوالے سے ہیں کہ بڑی طاقتوں کی چپقلش میں یہ خطہ کہیں خوفناک خانہ جنگی کا نہ شکار ہوجائے۔

شام میں اخوان المسلمون کے ساتھ جو ظلم روا رکھا گیا تھا اس کی بھی ایک بڑی طویل اور دلخراش داستان ہے۔ تمام عرب ممالک میں شام وہ ملک ہے جو اسرائیل کے سامنے ڈٹا ہوا تھا اسی لیے حماس کے مجاہدین کو اپنے یہاں پناہ دی ہوئی تھی لیکن حماس اور اسرائیل کی جنگ کے دوران بیرونی قوتوں کے دبائو پر شامی حکومت نے حماس کے لوگوں کو اپنے ملک سے نکل جانے پر مجبور کیا۔ ایک تجزیہ یہ کیا جاتا ہے کہ 2011 میں عرب بہار کے موقع پر شام کے اندر مجاہدین تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے لیکن روس نے ان پر بمباری کرکے شامی حکومت کو سہارا دیا اور اس وقت ان مجاہد تنظیموں میں القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں بھی تھیں۔ لیکن اب روس کو کیا ہوگیا تھا جو اس نے شام کی اس طرح مدد نہیں کی جیسے عرب بہار کے موقع پر کی تھی ایسا لگتا ہے کہ شام کے سیاسی مستقبل سالمیت کے حوالے سے بڑی طاقتوں کے درمیان کچھ معاملات طے پا گئے ہیں۔