اقبال ؍ فارسی کلام

145

دنیا کے نظام کی بنیاد خودی پر ہے
بادہ از ضعف خودی بے پیکر است
پیکرش منت پذیر ساغر است

مطلب: شراب اپنی خودی کی کمزوری کے سبب قالب سے عاری ہے (اس کی اپنی کوئی شکل نہیں) وہ ہر پیالے یا ظرف کا احسان گوارا کر لیتی ہے اور اسی کی شکل میں ڈھل جاتی ہے۔

گرچہ پیکر می پذیرد جام مے
گردش از ما وام گیرد جام مے

مطلب: گرچہ شراب کا پیالہ قالب قبول کرتا ہے یعنی اس کا قالب یا جسم ہے لیکن خود گردش نہیں کر سکتا وہ اپنی گردش ہم سے قرض لیتا ہے ہمارا محتاج ہے۔ (پیالے کی خودی شراب سے زیادہ مستحکم ہے)۔

کوہ چوں از خود رود صحرا شود
شکوہ سنج جوشش دریا شود

مطلب: پہاڑ جب اپنی ذات یا خودی سے غافل ہو جاتا ہے تو وہ بکھر کر صحرا کی صورت اختیار کر جاتا ہے اور سمندر کے طوفان کی شکایت کرنے لگتا ہے ( اس پر جو مصیبت آئی وہ خودی کو کمزور کر لینے کی وجہ سے آئی نہ اس کی خودی کمزور ہوتی نہ وہ ذروں میں بکھرتا اور نہ صحرا بنتا جب تک پہاڑ تھا، طغیانی یا تختہ مشق بن ہی نہیں سکتا تھا۔ )

موج تا موج است در آغوش بحر
می کند خود را سوار دوش بحر

مطلب: موج جب تک آغوش بحر میں موج کی صور ت ہے سمندر کے اندر ہے (یعنی وہ اپنی خودی سے باخبر ہے) وہ اپنے آپ کو سمندر کے کندھوں پر سوار رکھتی ہے۔

حلقہ ئی زد نور تا گردید چشم
از تلاش جلوہ ہا جنبید چشم

مطلب: نور (روشنی) نے ایک گھیرا یا دائرہ بنا لیا (خود کو مجتمع کیا) تو آنکھ بن گیا اور وہ آنکھ جلووَں میں سرگرم ہو گئی۔

سبزہ چون تاب دمید از خویش یافت
ہمت او سینہ ی گلشن شگافت

مطلب: سبزے نے جب اپنے اندر آگ آنے کی قوت پیدا کر لی تو اس کی ہمت نے باغ کا سینہ چیرا اور باہر نکل آیا۔

شمع ہم خود را بخود زنجیر کرد
خویش را از ذرہ ہا تعمیر کرد

مطلب: شمع نے آپ ہی زنجیر میں جکڑ لیا (اپنے دھاگے پر خود کو لپیٹ لیا) اس نے اپنی تعمیر ذروں سے کی (اس کی ہستی کا سروسامان فراہم ہو گیا)۔