امریکا عالم اسلام میں جوہری عدم پھیلاؤ پر پرُعزم؟

216

امریکا میں سابق پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ امریکی پابندیاں کوئی نئی چیز نہیں نہ ایسی چیزوں سے پاکستان پر کوئی اثر پڑتا ہے۔ پاکستان نے جب سے جوہری پروگرام کی کوشش کی امریکا نے پابندیاں لگائی ہیں۔ اسرائیل کی مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی پیش قدمی کے فوری بعد اردن اور ایران پر اسرائیلی قبضے کی دھمکیاں اور سعودی عرب و پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ میں اضافے بعد 17 دسمبر کو ایک مرتبہ پھر پاکستان کی دور ہدف کو نشانہ بنانے والے ایٹمی بیلسٹک میزائل پروگرام کو روکنے کی کوشش شروع کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے آلات فراہم کرنے والی کمپنیوں اور ایک فرد پر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔ امریکا نے کہا تھا کہ وہ ان پانچ اداروں اور ایک شخص کے خلاف کارروائی کر رہا ہے، جو بیلسٹک میزائلوں اور کنٹرولڈ میزائل آلات اور ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ میں ملوث ہیں۔ امریکا کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر تحفظات دیگر شعبوں پر اثرانداز نہیں ہوں گے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر اپنے تحفظات کے بارے میں واضح اور مستقل رہے ہیں، تاہم ان پابندیوں اور تحفظات کا دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے دیگر شعبوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ یوٹیوب چینل پر یہ بھی کہا تھا کہ امریکا پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر اپنے تحفظات واضح اور مستقل رہے ہیں، تاہم ان پابندیوں اور تحفظات کا دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے دیگر شعبوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل بھارتی لابی کے ایک اہم رکن ہیں اور وہ پاکستان کے خلاف ایک مخالفت کا رویہ رکھتے امریکا نے چند دن قبل جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان کے لانگ رینج بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلق نئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا، جس میں پروگرام کی نگرانی کرنے والی سرکاری دفاعی ایجنسی نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس اور تین تجارتی ادارے شامل ہیں۔ تاہم پاکستان نے امریکی پابندیوں پر فوری ردِ عمل دیتے ہوئے اس فیصلے کو ’متعصبانہ‘ اور ’بدقسمتی‘ قرار دیا ہے۔ اسی حوالے سے 19 دسمبر کو پریس بریفنگ میں سوالات کے جوابات دیتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا کہ ’امریکا دنیا میں جوہری عدم پھیلاؤ کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے اور پاکستان اس میں ایک اہم شراکت دار ہے، تاہم ہم پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کے بارے میں اپنے خدشات کے بارے میں واضح رہے ہیں۔ امریکا کا اب یہ عزم کچھ اس طرح ہونا چاہیے کہ ’امریکا دنیائے اسلام میں جوہری عدم پھیلاؤ کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے‘۔

امریکی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی حمایت نہیں کر سکتا ہے اور یہ امریکا کی دیرینہ پالیسی ہے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ کیا امریکا یہ بھی کہہ رہا کہ پاکستان کے ’’بیلسٹک میزائل‘‘ امریکا تک پہنچ سکتا ہے ممکن ہی نہیں لیکن ہاں شاید پاکستان کا بیلسٹک میزائل اسرائیل تک ضرور پہنچ سکتا ہے اس لیے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پر پابندی امریکا کی خواہش نہیں اسرائیل کا خوف ہے۔ امریکا کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کی حمایت نہیں کر سکتا ہے۔ یہ امریکا کی ماضی میں بھی خارجہ پالیسی رہی ہے اور امریکایہ پابندیاں لگاتا رہے گا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے 17 ستمبر 2024 کو واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’پاکستان ہمارا ایک طویل مدتی شراکت دار رہا ہے اور میرے خیال میں اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب بھی پاکستان اور امریکا کے درمیان ایسے معاملات ہیں جہاں ہمارے درمیان اختلافات موجود ہیں اور جب ہمارے درمیان اختلافات ہوں گے تو ہم امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے سے ہر گز نہیں ہچکچائیں گے‘۔

ویدانت پٹیل کا کہنا تھا کہ ’محکمہ خارجہ اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے پابندیوں اور دیگر آپشنز کا استعمال جاری رکھے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ امریکی برآمد کنندگان اور امریکی مالیاتی نظام کا غلط استعمال نہ کیا جا سکے‘۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہم ان مسائل پر پاکستانی حکومت کے ساتھ تعمیری بات چیت جاری رکھیں گے۔ بریفنگ کے دوران ویدانت پٹیل سے سوال کیا گیا کہ ’آپ نے جمہوریت کو کمزور کرنے کی وجہ سے جارجیا کی پوری وزارت داخلہ پر پابندی عائد کر دی۔ پاکستان بیلسٹک میزائل پروگرام کو دفاعی ضرورت کہتا ہے مگر آپ نے اس پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں‘۔ اس وقت پاکستان میں ایسے عناصر موجود ہیں جو وہاں جمہوریت کو کمزور کر رہے ہیں۔ وہ حملے کر رہے ہیں۔ مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔ لہٰذا واضح طور پر آپ ایسے کام کر رہے ہیں جو پاکستان کے اسٹرٹیجک دفاع سے جڑے ہوئے ہیں لیکن جمہوریت کے حوالے سے آپ کے کچھ مختلف معیارات ہیں۔ تو کیا یہ امریکا کا دہرا معیار ہے؟‘ اس سوال کے جواب میں ویدانت کا کہنا تھا نہیں، بالکل نہیں۔ میرے خیال میں مختلف ممالک میں حالات کا موازنہ کرنے کی کوشش کرنا انتہائی نامناسب ہے۔ ہر ملک اور وہاں کی صورت حال مختلف ہوتی ہے۔ یہ پابندیاں جو ہم نے پاکستان پر عائد کی ہیں، جیسا کہ میں اب تین بار کہہ چکا ہوں، ان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کے بارے میں ہمارے خدشات ہیں۔ اس کا ہمارے اور پاکستان کے درمیان تعاون کے دیگر شعبوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

اپنے پڑھنے والوں یہ بھی بتاتا چلوں کہ امریکا کی جانب سے حالیہ پابندیاں ایگزیکٹو آرڈر 13382 کے تحت لگائی گئی ہیں، جس میں ایسے افراد اور اداروں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے، جو ہتھیاروں اور ان کے ترسیلی ذرائع کے پھیلاؤ میں ملوث ہوں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق پابندیوں کا شکار ہونے والے ادارے نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی)، اختر اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ، افیلیئٹس انٹرنیشنل، اور راک سائیڈ انٹرپرائز ہیں۔ ان اداروں پر جو بنیادی طور پر اسلام آباد اور کراچی میں واقع ہیں، پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان کے میزائل پروگرام کے لیے خصوصی آلات اور مواد کی فراہمی میں کردار ادا کیا ہے۔ امریکا اس سے قبل بھی جنوبی ایشیا میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاؤ، خاص طور پر پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی کی ترقی پر مسلسل خدشات کا اظہار کرتا رہا ہے، تاہم پاکستان کے کسی سرکاری ادارے پر لگائی جانے والی یہ اپنی نوعیت کی پہلی پابندی ہے۔ اس پوری صوتحال سے اس بات کا اعلان ہو رہا ہے کہ ان پابندیوں مدد سے اثر انداز ہوا جائے اور عالمی سطح پار بھارت اور اسرائیل کو گریٹر ملک بنانے میں ہر ممکن مدد کی جائے، اس سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آرہی ہے کہ پاکستان امریکا کی ترجیحات میں شامل نہیں، ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں چین اہم ہوگا، جب سے امریکا افغانستان سے نکلا ہے تب سے پاک امریکا تعلقات دوراہے پر کھڑے ہیں۔