سقوط ڈھاکا کا غم… سرکاری سطح پر کیوں نہیں؟

173

سقوط ڈھاکا کو 54 برس بیت گئے۔ قیام پاکستان کے 24 سال بعد 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان کا مشرقی بازو توڑ دیا گیا جسے پاکستان کی تاریخ میں ’’سقوط ڈھاکا‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے گوکہ ہر سال سقوط ڈھاکا کے موقع پر اخبارات میں ایڈیشن، کالم اور تصاویر شائع ہوتی ہیں۔ پاکستان ٹوٹنے پر افسوس اور سبق حاصل کرنے کی باتیں بھی کی جاتی ہیں۔ تاہم سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایوانِ صدر، وزیراعظم ہائوس، گورنر ہائوس اور وزرائے اعلیٰ ہائوسز میں آج تک سرکاری سطح پر سقوط ڈھاکا کے حوالے سے کوئی تقریب یا سیمینار وغیرہ منعقد نہیں کیا گیا حالانکہ سقوط ڈھاکا کا تعلق قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان ٹوٹنے سے ہے لہٰذا یہاں لازمی تھا کہ پاکستانی حکمرانوں کا تجزیہ یا نقطہ نظر سامنے آتا اور قوم کو یہ بات معلوم ہوتی کہ ہمارے حکمران 16 دسمبر 1971ء کے سانحے کو کس طرح سے دیکھتے ہیں اور یہ کہ ان کے نزدیک غلطی کہاں اور کس سے ہوئی؟ جبکہ سابق فوجیوں کی تنظیم کا بھی اس موقع پر کوئی ایک اجلاس ضرور ہونا چاہیے تھا کیونکہ وہ زیادہ بہتر طور پر سقوط ڈھاکا کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ بات بتا سکتے ہیں کہ سقوط ڈھاکا فوجی شکست تھی یا سیاسی؟ مزید برآں قوم یہ بھی معلوم کرنا چاہتی ہے کہ حاضر سروس فوج کے ترجمان ’’ISPR‘‘ اِس موقع پر کیا فرما رہے ہیں۔ فوج کے زخم بھر گئے یا ابھی درد باقی ہے؟ تاہم انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سقوط ڈھاکا کے حوالے سے جب ’’16 دسمبر‘‘ آتا ہے حکمران قیادت خاموش رہتی ہے وہ کیوں نہیں بولتی شاید پاکستان توڑنے والوں کی باقیات اب تک ان کے اندر موجود ہیں۔

عجیب بات ہے کہ 16 دسمبر 2024ء کو جب ہم 16 دسمبر 1971ء کا تجزیہ کرتے ہیں تو جہاں 70ء کے عام انتخابات اور سقوط ڈھاکا نظر آتا ہے وہیں پر آج کا نقشہ بھی کچھ ویسا ہی لگتا ہے۔ 28 فروری کے انتخابات اور اُن کے نتیجے میں بننے والی حکومت، اُس وقت کے سیاستدان اور حکمران صدر جنرل یحییٰ خان، عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن اور پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو جبکہ آج کے سیاستدان اور حکمران صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کہ جن کا تعلق بالترتیب پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف (PTI) سے ہے، نے جو سیاسی تھیٹر سجایا اور بھنگڑا ڈالا ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے 16 دسمبر 1971ء نے اب تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔ شیخ مجیب الرحمن عمران خان اور علی امین گنڈا پور کے آئیڈیل بنتے جارہے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا روحانی اور سیاسی رہنما سمجھتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت شاید اس لیے بھی ’’سقوط ڈھاکا‘‘ پر کوئی سرکاری پروگرام نہیں رکھنا چاہتی کہ اگر سقوط ڈھاکا پر بات ہوگی تو پھر بہت کچھ زیر بحث آسکتا ہے۔ جہاں جنرل نیازی کے سرنڈر اور جنرل یحییٰ خان کی حماقتوں کا ذکر ہوگا تو پھر وہاں یقینا شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کے اُس سیاسی کردار کا بھی ذکر ہوگا جو پاکستان بچانے کے لیے نہیں توڑنے کے لیے ادا کیا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کوئی مقرر یہ بتادے کہ جب جنرل یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکا میں بلانے کا فیصلہ کیا تو جناب ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ جو ایم این اے مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان اجلاس میں شرکت کے لیے گیا اُس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی‘‘۔ اُدھر تم اِدھر ہم کا نعرہ لگانے والے لیڈر کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔

جی او سی مشرقی پاکستان جنرل رائو فرمان علی جب شیخ مجیب الرحمن کا پیغام لے کر راولپنڈی کے ایوانِ صدر پہنچے تو اُس وقت جنرل یحییٰ خان، جنرل عبدالحمید اور ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں جو گلاس تھے کیا وہ خالی تھے؟ چین کے وزیر خارجہ نے ایک موقع پر یہ بیان کیوں دیا کہ جنرل یحییٰ خان نے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں جو اعلیٰ سطح کا وفد بیجنگ بھیجا تھا اُس نے چین سے فوجی مدد لینے کی کوئی بات ہی نہیں کی تھی۔ یو این او میں پولینڈ کی قرار داد کیوں پھاڑی گئی حالانکہ اِس قرار داد میں تو کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک (بھارت اور پاکستان) کی فوجیں واپس اپنی اپنی سرحدوں پر آجائیں اور پاکستان کو اپنا سیاسی بحران بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا موقع دینا چاہیے۔ اِس قرار داد کو تسلیم کرلینے سے سقوط ڈھاکا کے سانحے سے بچایا جاسکتا تھا مگر بھٹو صاحب جذباتی انداز سے قرار داد پھاڑتے ہوئے اُٹھ گئے، بعدازاں بھٹو صاحب ایک یورپی ملک میں اُس وقت تک آرام کرتے رہے کہ جب تک سقوط ڈھاکا رونما نہ ہوگیا۔ آرمی چیف جنرل گل حسن اور ائرمارشل رحیم ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو لینے پہنچ گئے۔ جنرل یحییٰ خان سے اقتدار لے لیا گیا اور بھٹو صاحب سول ڈریس میں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ شیخ مجیب الرحمن پر مقدمہ چلائے بغیر راتوں رات لندن کیوں پہنچادیا گیا کہ جہاں سے شیخ صاحب نے سیدھا ڈھاکا پہنچ کر وزیراعظم کا حلف اٹھالیا؟ 1970ء کے انتخابات تو پورے پاکستان کے لیے ہوئے تھے کہ جن میں اکثریت عوامی لیگ کو حاصل ہوئی تھی تاہم پاکستان ٹوٹ جانے کے بعد دوبارہ انتخابات کروانے کے بجائے اپوزیشن جماعت (پیپلز پارٹی) کو کس اصول اور قانون کے تحت اقتدار سونپ دیا گیا۔ اِس سازش کے پیچھے کون سی طاقت تھی؟ بظاہر کہنے کو تو یہ کہا جاتا ہے کہ 1974ء میں ’’اسلامی سربراہ کانفرنس‘‘ کا انعقاد ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا عظیم کارنامہ ہے مگر یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ جب مسلم ممالک کے معزز مہمان سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور پہنچنا شروع ہوگئے تو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے واپڈا آڈیٹوریم میں اچانک پریس کانفرنس کرتے ہوئے ’’بنگلا دیش‘‘ منظور کرنے کا اعلان کردیا جس پر سعودی بادشاہ فیصل کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ نے آبدیدہ ہو کر فرمایا کہ ’’ہم پاکستان میں پاکستان ٹوٹنے کی خبر سننے نہیں آئے تھے‘‘۔ یاد رہے کہ اِس دوران جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں نے پورے ملک کے اندر ’’بنگلا دیش نامنظور‘‘ کی طاقتور عوامی تحریک چلا رکھی تھی جس کے سامنے بھٹو صاحب نے بے بس ہو کر اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع کو غنیمت سمجھا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اگر اُس وقت بھٹو صاحب سرکاری طور پر بنگلادیش تسلیم کرنے کا اعلان نہ کرتے تو آج جس طرح سے بنگلادیش کے عوام نے بھارت اور بھارت نواز حکومت کے تسلط سے آزادی حاصل کی ہے اور جس جوش و خروش سے ڈھاکا میں ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگ رہے ہیں انہی نعروں کی گونج کے دوران بنگلادیش واپس ’’مشرقی پاکستان‘‘ بھی بن سکتا تھا مگر ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن اور اندرا گاندھی پکا کام کر گئے کہ ہمارے مرنے کے بعد بھی قائداعظم کا اصل پاکستان بحال نہ ہوسکے۔

ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جب سقوط ڈھاکا واقعہ ہوا تو پاکستانی جنرل اور دیگر فوجی تو قیدی بن کر بھارت کی جیلوں میں منتقل ہوگئے کہ جہاں اُن کی زندگی محفوظ ہوگئی۔ بعدازاں ’’شملہ معاہدے‘‘ کے ذریعے یہ تمام قیدی اپنے وطن لوٹ آئے مگر جن نوجوانوں نے پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا ان کا کیا حشر ہوا انہیں تو کسی نے گھر نہیں لوٹنے دیا بلکہ گھروں سے نکال نکال کر ڈھاکا کے پلٹن میدان (جہاں سرنڈر کی شرمناک تقریب ہوئی تھی) لے جایا گیا اور پھر عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے دہشت گردوں کے سامنے بھارت سے آئے ہوئے تازہ دم فوجیوں نے البدر، الشمس، اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے کارکنوں کو انتہائی بے رحمی کے ساتھ سنگین گھونپ گھونپ کر شہید کیا۔ تاہم بات یہاں بھی ختم نہ ہوئی، خون پھر بھی نہ رُکا، انتقام مزید جاری رہا۔ (جاری ہے)

غدار شیخ مجیب الرحمن کی قاتل بیٹی حسینہ واجد جب بنگلا دیش کی وزیراعظم بنی تو پھر سے جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ قید و بند کے دروازے اور تختہ دار کے رسے کھول دیے گئے۔ سابق امیر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان پروفیسر غلام اعظم اور مولانا عباس علی خان جیسے عظیم رہنما جیل ہی میں وفات پا گئے جبکہ امیر جماعت اسلامی بنگلا دیش مطیع الرحمن نظامی صاحب سمیت جماعت اسلامی کے کتنے ہی رہنمائوں کو بڑھاپے کی حالت میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ یہ تمام سزائیں سقوط ڈھاکا کے 45 سال بعد یہ کہہ کر دی جارہی تھیں کہ 1971ء میں آپ نے پاکستان اور پاک فوج کا ساتھ کیوں دیا۔ مگر حیرت اور کمال کی بات یہ ہے کہ اس قدر مشکل وقت کہ جب زندگی دائو پر لگ گئی ہو تب بھی امیر جماعت اسلامی بنگلادیش سمیت سب رہنما یہ کہتے رہے کہ 1971ء میں ہم نے پاکستان سے وفادار رہنے اور پاک فوج کا ساتھ دینے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ ہر حوالے سے بالکل ٹھیک تھا۔ جماعت اسلامی کے کسی رہنما نے جیل میں دم توڑنے یا پھانسی چڑھتے وقت اسلام، پاکستان اور فوج سے اپنی محبت اور وفاداری سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی بنگلادیش حکومت سے معافی مانگی۔ امیر جماعت اسلامی بنگلادیش جناب مطیع الرحمن شہید کا یہ ایمان افروز جملہ ہمیشہ یاد رہے گا کہ جب آپ کو پھانسی دینے کے لیے بلیک وارنٹ پڑھ کر سنایا گیا تو اِس کے بعد جیلر نے آپ سے کہا کہ آپ چاہیں تو صدر بنگلادیش سے رحم کی اپیل کرسکتے ہیں اِس پر نظامی صاحب نے فی الفور فرمایا ’’میرے لیے اللہ کا رحم ہی کافی ہے‘‘۔

حیرت ہے کہ پاکستان اور پاکستانی فوج کے ان وفاداروں اور مخلص ساتھیوں کی شہادت پر ’’ISPR‘‘ نے کبھی کوئی خراج عقیدت پیش نہیں کیا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں مشرقی پاکستان کے شہدا کے لیے کبھی قرآن خوانی نہیں کی گئی۔ آج بنگلادیش میں بھارت مردہ باد اور پاکستان زندہ باد کے جو نعرے گونج رہے ہیں وہ انہی کارکنوں اور رہنمائوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ جن کا ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں۔ 9 مئی کے واقعات پر تو بڑا غصہ اور انتقام ہے۔ ملزمان کو زندہ چبا جانے کے لیے دانت پیسے جارہے ہیں۔ بلاشبہ 9 مئی کے واقعات بھی افسوسناک اور قابل مذمت ہیں تاہم پاک فوج کے جو وفادار ساتھی ڈھاکا کے پلٹن میدان سے لے کر ڈھاکا یونیورسٹی اور ڈھاکا جیل تک انتہائی بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے اُن کا بھی کبھی کسی نے کوئی ذکر کیا۔ اُن کے غم کو تازہ کرنے اور قربانیوں کو یاد کرنے کے لیے بھی کبھی راولپنڈی یا اسلام آباد میں کوئی تقریب وغیرہ رکھی گئی؟

بہرحال جو لوگ بھی پاکستان اور پاک فوج کے وفادار ہیں انہیں کوئی صلہ، تمغہ یا معاوضہ نہیں چاہیے کیونکہ یہ لوگ بحیثیت مسلمان کے اپنے وطن وفادار ہیں جو کوئی احسان نہیں بلکہ دینی فریضہ ہے کیونکہ ہمارے نزدیک پاکستان ہمارا گھر ہے کہ جہاں پر ہم اور ہماری آئندہ نسلوں کی عزت و آبرو اور آزادی محفوظ رہے گی ان شاء اللہ۔ تاہم ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ ہماری تاریخ تحریک پاکستان کے شہداء سے لے کر 65ء، 71ء اور کارگل جنگ کے شہداء سمیت مشرقی پاکستان کے شہدا اور شہدا آرمی پبلک اسکول پشاور سے ہوتی ہوئی اُن تمام شہدا تک پھیلی ہوئی ہے کہ جو آج بھی دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کے داخلی اور سرحدی محاذوں پر برسرپیکار اور اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ شہدا کی تاریخ کو ہر سال 16 دسمبر (سقوط ڈھاکا) کو سرکاری سطح پر ترتیب اور تفصیل کے ساتھ یاد کرنا چاہیے کیونکہ تاریخ کے نشیب و فراز میں بہت بڑا سبق ہے جو ہمارے مستقبل کو سنوارنے اور محفوظ بنانے کے لیے اُن غلطیوں اور کارناموں کی نشاندہی کرتا ہے کہ جن سے ہمارا ماضی اور حال وابستہ ہے۔