2023-24 میں افغان حکومت کی اقتصادی کامیابی

169

افغانستان کی اسلامی حکومت اپنے معاشی اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس بات کا اعتراف سامراجی ذیلی ادارے کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ورلڈ بینک کی دسمبر 2024 کی شائع رپورٹ میں اس کامیابی کے اشاریے مختصراً درج ہیں۔

ان تخمینوں کے مطابق 24-2023 میں افغان مجموعی پیداوار کی شرح نمو تقریباً 3 فی صد رہی جو کہ پاکستان اور سری لنکا کی اس سال کی مجموعی پیداواری شرح نمو سے زیادہ ہے۔ زرعی پیداوری شرح نمو میں 2.5 فی صد اضافہ ہوا اور زرعی فی صد پیداواری سکت تقریباً 4 فی صد بڑھی۔ افغان حکومت افیون کی پیداواری کاشت کو ختم کر کے خوردنی اشیا اور کپاس کی پیداوار کو بڑھانے میں 98 فی صد تک کامیاب ہوئی۔ صنعتی شعبہ کی شرح نمو بھی تقریباً 3 فی صد بڑھی۔ کان کنی کے شعبہ کی شرح نمو 7 فی صد رہی۔ بجلی، گیس اور پانی کے شعبوں کی پیداواری شرح نمو 5 فی صد رہی۔ آبی وسائل کی ذخیرہ اندوز ی کا نظام پھیلا اور شمسی توانائی کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوا۔ 2023-24 میں خدمتی شعبہ کی پیداواری شرح نمو بھی 2 فی صد رہی۔ تجارت میں 18 فی صد اضافہ ہوا۔ مواصلاتی شعبے کی شرح نمو 6 فی صد رہی۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں کا شرح نمو بھی مثبت رہا۔ درآمدی محصولات تقریباً 12 فی صد بڑھے۔ صرف نجی شعبے میں 7 فی صد اضافہ ہوا۔ 80 فی صد زیادہ کاروباری ملکی معاشی استحکام کا اظہار کرتے پائے گئے۔

2023-24 میں شرح افراط زر میں مستقلاً کمی واقع ہوتی رہی اور خوردنی اور غیر خوردنی اشیا کی قیمتیں گرتی رہیں۔ 2022 سے لے کر 2024 تک ہر ماہ قیمتیں تقریباً ایک فی صد ماہانہ کے حساب سے گرتی رہی ہیں۔ جولائی 2022 کے مقابلے میں جولائی 2024 میں خوردنی اشیا کی قیمتیں 17 فی صد اور غیر خوردنی اشیا کی قیمتیں 7 فی صد کم تھیں۔ بنیادی شرح نمو جو خوردنی اور توانائی قیمتوں کے اضافہ کو نظرانداز کر کے مرتب کیا جاتا ہے 24-2023 میں منفی 3 فی صد رہا۔

ورلڈ بینک کے دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں غربت کی سطح 2022 کے مقابلہ میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ 2022 – 2024 تک غربت کی سطح 7 فی صد کم ہوئی ہے اور اس کی وجہ بہتر معاشرتی تحفظ، مارکیٹی پھیلاؤ اور زرعی افرادی پیداواریت میں اضافہ رہا ہے۔ 2023-24 میں اسلامی حکومت اپنا محصولیاتی ہدف بآسانی حاصل کر لیا۔ محصولات 2023 کے مقابلے میں 9 فی صد زیادہ حاصل کیے گئے اور ان کا حجم 211 افغانی 2024 میں رہا۔ وصول یابیاں توقع سے زیادہ رہیں۔ 24-2023 میں بیرونی وصول یابیاں 23-2022 کے مقابلے میں 5 فی صد زیادہ رہیں۔ اس سال ٹیکس سے حاصل رقوم میں 31 فی صد اضافہ ہوا۔ یہ اس کے باوجود کہ اسلامی حکومت نے کاروبار اور صنعتوں پر ٹیکس کی شرح میں کمی کی۔ غیر ٹیکس محصولات 24-2023 میں 11 فی صد بڑھے بالخصوص کان کنی اور مواصلاتی شعبے سے۔ حکومتی محصولات میں اضافہ ٹیکس کی فراہمی میں عوامی تعاون اور وصولیابی نظام سے کرپشن کا خاتمہ بتایا گیا ہے۔

اسلامی حکومت 24-2023 میں ترقیاتی سرمایہ کاری میں تقریباً 100 فی صد اضافہ کیا اور اس کا حجم 18 بلین افغانی رہا۔ رواں اخراجات میں 2021 سے مستقل تخفیف کی جا رہی ہے جس کی وجہ شہروں کی فیسوں اور سرکاری افسران کی غیر تنخواہی مراعات میں کمی ہے۔ اسلامی حکومت نے غدار حکومتوں سے جو بین الاقوامی قرضہ جات 2002 تا 2021 لیے تھے ان کے اصل کی ادائیگی بھی شروع کر دی ہے۔ توازن ادائیگی کے شرح میں 24-2023 میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ پابندیاں ہیں جو پاکستان افغان تجارت پر عائد کرتا رہتا ہے جیسا کہ ورلڈ بینک اقرار کرتا ہے کہ 24-2023 میں افغان برآمدات کا حجم تقریباً 2 بلین ڈالر رہا۔ خوردنی برآمدات میں 13 فی صد اضافہ ہوا اور یہ مجموعی افغان برآمدات کے اس سال تقریباً 68 فی صد رہے۔ ان اشیا کی برآمدات کی بڑھوتری پر پاکستانی تجارتی اقدامات (طور خم بارڈر کو بند کرنا، آمدورفت پر نئی نئی پابندیاں عاید کرنا، درآمدتی محصولات میں ہوش ربا اضافہ) کا منفی اثر پڑا۔ اس کے علاوہ ٹیکسٹائل برآمدات 24-2023 میں 46 فی صد بڑھیں اور دھاتوں کی مصنوعات اور لکڑی کی مصنوعات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ پاکستانی پابندیوں کی وجہ سے کوئلے کی برآمدات میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔ اب بھی پاکستان افغان برآمدات کا 46 فی صد حاصل کرتا ہے۔ لیکن 2023 میں یہ حصہ 58 فی صد تھا۔ اس پاکستانی تخفیف سے بھارت فائدہ اٹھا رہا ہے اور بھارتی حصہ افغانی برآمدات میں 2023 میں 23 فی صد سے بڑھ کر 2024 میں 27 فی صد ہو گیا ہے۔

2023-24 میں افغان درآمدات 23 فی صد بڑھے۔ ان برآمدات میں مشینری، گاڑیاں، مواصلاتی مصنوعات اور کیمیکل درآمدات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس بات کا اظہار ہے کہ افغانستان میں صنعتی پیدوار تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ افغانستان میں سیمنٹ، لوہے اور مشینوں کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران افغانستان کا سب سے بڑا درآمداتی بازار ہے۔ ایران تیل اور مشینری اور آئی ٹی مصنوعات فراہم کر رہا ہے اور ایران اور افغانستان میں تجارتی تعلقات ترقی پا رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جلد از جلد ایک آزاد تجارتی معاہدہ قائم ہو جس کے نتیجے میں افغانی برآمدات ایران میں کھپائی جا سکیں۔

بیرون ملک سے افغانی مقیم باشندے بڑے پیمانے پر ترسیل رقوم کر رہے ہیں۔ اس نوعیت کے ترسل زر کا حجم 24-2023 میں 2 بلین ڈالر رہا۔ 24-2023 میں افغانستان کی بین الاقوامی قدر میں اوسطاً 27 فی صد اضافہ ہوا۔ یہ اضافہ امریکی ڈالر، چینی یوآن، جاپانی ین، بھارتی اور پاکستانی روپوں اور ایرانی تومان کے مقابلہ میں کئی سال سے ہو رہا ہے۔ 2023-24 میں ان بینک کھاتوں میں مقامی کرنسی افغانی میں رکھے جاتے ہیں 18 فی صد اضافہ ہوا۔ اور مرکزی بینک نے کئی مرتبہ بینک سے رقوم نکالنے کی حدود میں تخفیف کی۔ اب کھاتے داروں کو اجازت ہے کہ وہ ماہانہ ڈھائی لاکھ افغانی اپنے کھاتوں سے نکال سکتے ہیں۔ اکتوبر 2024 سے مرکزی بینک نے ہدایت جاری کی ہے کہ بینک اپنے ناقابل ادائیگی قرضہ جات میں جو نقصانات ہوتے ہیں ان کو اپنے سالانہ حسابات میں درج کر کے اپنے منافع کا تخمینہ مرتب کریں۔

ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ دوسال کے قلیل عرصہ میں اسلامی حکومت افغانستان کی معیشت کو مستحکم اور ترقی کی راہ میں گامزن کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ افغانستان میں کوئی بحران نہیں ہیں۔ نہ وہاں فاقہ کشی ہے نہ بے روزگاری ہے نہ غربت کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا اقرار اب سامراجی دشمن ادارے جیسے ورلڈ بینک بھی کر رہے ہیں۔ لیکن یہ امر تشویش ناک ہے کہ ورلڈ بینک کو بلاروک ٹوک اعداد و شمار جمع کرنے کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ اپنے دسمبر 2024 کے اپڈیٹ میں ورلڈ بینک اس بات کا کھلم کھلا اقرار کرتا ہے کہ وہ امریکی سٹیلائٹ سسٹم سے حاصل شدہ اطلاعات جمع کرتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے افغان ویلفیئر مانیٹرنگ سروے کے ذریعے بھی افغان معاشرہ کی نگرانی کر رہا ہے۔ کیا افغان اسلامی حکومت کو اس کا اندازہ نہیں کہ ورلڈ بینک ایک سامراجی ادارہ ہے جس کی تخریب کارانہ سرگرمیاں کئی لاطینی امریکی اور افریقی ممالک میں طشت ازبام کی جا چکی ہیں۔ وہ اپنے سامراجی آقاؤں کی خدمت کے لیے اپنی تحقیقی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے جو مشورے اپنی تحقیقات کی بنیاد پر دے رہا ہے ان کو اپنایا گیا تو اسلامی حکومت کی معاشرتی گرفت کمزور سے کمزور ہوتی چلی جائے گی۔ ورلڈ بینک اسلامی حکومت کو مستقل عارضی کہتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس حکومت کو عارضی بنانا چاہتا ہے اور ایک نئی سامراج نواز سرکار کے قیام کی راہ ہموار کر رہا ہے۔