بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ کیوں !

151

مرکزی بینک نے گزشتہ 31 دسمبر 2023 تک ملک پر قرضے کی جو تفصیلات جاری کی ہیں ان کے مطابق پاکستان پر مجموعی طور پر 65189 ارب روپے کا اندرونی و بیرونی قرضہ ہے جس میں صرف ایک سال کے دوران 14 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ 31 دسمبر 2022 کو ملک پر مجموعی قرضہ 51058 ارب روپے تک تھا جو ایک سال میں 65189 ارب روپے ہو گیا اور ایک سال میں قرض میں ہونے والا یہ اضافہ 27.7 فی صد تھا۔

ملک کی اس پریشان کن مالی و معاشی صورتحال کے تناظر میں سوشل میڈیا پر ان دنوں زیر گردش یہ ویلاگ قوم کی دریا دلی اور اللہ کے احکامات پر عمل درآمد کی جانب ہم سب کی توجہ مبذول کراتے ہوئے اس بات کی کھلی نشاندہی بھی کررہا ہے کہ مجموعی طور پر ہم پاکستانی مسلمان نرم دل اور خوف خدا رکھنے والے ہیں اور ضرورت مندوں کی امداد سوچے سمجھے بنا کرنے میں دیر نہیں لگایا کرتے۔ اس رپورٹ کے مطابق ملک کے لوگ جن کی کل تعداد تقریباً 25 کروڑ ہے، شدید مہنگائی اور مالی پریشانی کے باوجود مجموعی طور پر یومیہ 3 کروڑ 83 لاکھ افراد کو بھیک دے کر انہیں مجبوری میں جینے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں بھیک مانگ کر اپنا اور اپنے اہل خانہ کا گزارا کرنے اور کروانے پر مجبور افراد کو بھکاری لکھا گیا ہے اور یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ان بھکاریوں کی کل تعداد 3 کروڑ 80 لاکھ 66 ہزار ہے جن میں 12 فی صد مرد 55 فی صد خواتین 27 فی صد بچے اور 6 فی صد سفید پوش مجبور افراد شامل ہیں۔

محتاط جائزے کے مطابق ان تمام افراد درمیان کم و بیش 3 لاکھ کام چور، کاہل، ڈھونگی، چالباز، شاطر افراد بھی شامل ہیں جو عادی بھیک منگے بن چکے ہیں، رپورٹ کے مطابق ان بھکاریوں کا 50 فی صد کراچی 16 فی صد لاہور 7 فی صد اسلام آباد اور باقی ملک کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں منقسم ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ علماء کرام دین اسلام کے حوالے سے بھیک مانگنے کو مکروہ عمل قرار دیا کرتے ہیں اور اسے نا پسندیدہ اعمال میں شامل کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف شدید مہنگائی اور قریبی رشتہ داروں کی بے رخی بہت سے لوگوں کو بھیک مانگنے یا اجتماعی خود کشی کرنے پر بھی مجبور کردیا کرتی ہے۔ 

گداگری کے موضوع پر گفتگو ہو اور ہم بھارت کی ریاست مدہیہ پردیش کا تذکرہ نہیں کریں وہ اس کالم کے ساتھ نا انصافی ہوگی کیونکہ بھارت کی اس ریاست میں بلدیاتی حکام نے حال ہی میں گداگری کے خاتمے کے لیے سخت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت نا صرف بھیک مانگنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا بلکہ ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کرکے گداگری ایکٹ کے تحت عدالتی کارروائی بھی کی جائے گی۔ گداگروں یا بھیک مانگنے والوں کے خلاف قوانین ہمارے ملک میں بھی موجود ہے مگر اس پر کراچی میں صرف ایک بار آمریت کے دور میں 1982 میں عمل درآمد کیا گیا تھا یہ اس وقت کے گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم عباسی کے دور کی بات ہے جب گداگری کے سدباب کے لیے نہ صرف مہم چلائی گئی تھی بلکہ گداگروں کو باعزت ہنر مند بنانے کے لیے کورنگی کراسنگ کے قریب سات ایکڑ مربع رقبہ پر ایک وکیشنل سینئر بھی ہنگامی بنیادوں پر تعمیر کیا گیا تھا جو جمہوریت کے بحال ہوتے ہی پولیس ٹریننگ اسکول میں تبدیل ہوکر آمریت کے نام و نشان کے ساتھ سے مٹا دیا گیا اس طرح گداگری کے مستقل سدباب کا ایک عظیم الشان منصوبہ جمہوریت پسندوں کی بھینٹ چڑھ گیا اور قوم کے سامنے گداگری کے دروازے کھل گئے۔ ہمارے جمہوریت پسندوں کو ماضی میں ملک کی ترقی کے لیے شاید قوم کی تیاری کے لیے تربیتی مراکز سے زیادہ گداگروں کا فروغ عزیز رہا ہوگا، تب ہی حکمران خود تو ملکوں ملکوں بھیک مانگ کر عوام کو بھکاری بنا چکے ہیں۔