اس دفعہ یعنی دسمبر 2024ء میں ہونے والے کراچی کتب میلے میں شہریوں کا سمندر تھا۔ یعنی تیسرے روز کے شرکا کی تعداد ساڑھے 4 لاکھ ریکارڈ کی گئی اور ابھی تو ایک دن باقی تھا۔ آخری دن تو یوں بھی لوگ اُمنڈ کر آتے ہیں کہ قیمتیں اور کم ہوتی ہیں۔ اس دفعہ پبلشرز اور بک سیلرز نے کتابوں اور دیگر نصابی اشیا پر 50 سے 70 فی صد رعایت کا خوش کن اعلان کیا تھا۔ شائقین کتب کی تصاویر جہاں کہیں بھی دیکھیں خوشی سے چمکتے چہرے نظر آئے۔ کتابوں میں منہمک بچے اور بڑے اسٹالوں پر بھیڑ لگائے تھے۔ کچھ شائقین کتب کا خیال تھا کہ یہ میلہ سال میں دو دفعہ لگانا چاہیے۔ آج کے انٹرنیٹ کے دور میں عام تاثر یہ ہے کہ کتاب سے محبت ختم ہوگئی ہے اور لوگ کتاب خریدنے کے بجائے برگر خریدنا زیادہ پسند کرتے ہیں لیکن ایکسپو کا یہ کتاب میلہ اس تاثر کی نفی کرتا نظر آرہا ہے۔ پبلشرز اور بک سیلرز کے مطابق لوگوں میں کتاب پڑھنے کا شوق بڑھا ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ اب کاغذ کے بجائے لوگ کتابوں کی سافٹ کاپی فون یا ٹیبلٹ پر پڑھتے ہیں۔ اُس کی وجوہات کاغذ کا مہنگا ہونا اور کتابوں کو ہر وقت ساتھ نہ رکھ پانا ہے۔ کتاب کو پڑھنے والا کبھی خسارے میں نہیں رہتا کیونکہ یہ ایسا استاد ہوتی ہے جو آپ کے پاس ہر وقت ہے اور جب جب آپ چاہتے ہیں آپ کو سکھانے اور بتانے کو موجود ہوتی ہے۔ کتاب کا شوق یا یوں کہہ لیں کہ مطالعے کا شوق سوچ کو تعمیری بناتا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے محروم کو اپنی بات کہنے میں ہچکچاہٹ ہوتی ہے کیونکہ اس کے پاس دلائل اور علم کا فقدان ہوتا ہے اس کے برعکس کتاب دوست کے لہجے میں شائستگی اور گفتگو میں گہرائی ہوتی ہے۔
پچھلے سال لاہور میں ہونے والے عالمی کتاب میلہ فروری 2024ء میں ہوا تھا جس کے بارے میں ایک ٹی وی اداکار خالد انعم کا ایک بیان اور تصویر بہت زیادہ پھیلی اور پھیلائی گئی یعنی وائرل ہوئی۔ اس میں دعویٰ کیا گیا کہ لاہور میں منعقد ہونے والا عالمی کتب میلہ ایک فوڈ فیسٹیول میں تبدیل ہوگیا۔ شرکا نے کتابوں سے زیادہ کھانے پینے کی اشیا خریدیں، کتابیں تو 35 فروخت ہوئیں لیکن شوارمے 120 اور بریانی 800 خریدی گئیں۔ یہ پوسٹ سوشل میڈیا میں بہت زیادہ شیئر کی گئی یہاں تک کہ بہت سے سیاستدانوں نے بھی اسے پوسٹ کیا اور اس پر تبصرے کیے۔ اس پوسٹ کے بارے میں خالد انعم سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ ان اعداد و شمار کی کوئی حقیقت نہیں اور انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک انگریزی پوسٹ دیکھی اور اس کا ترجمہ کرکے بلا تصدیق محض مذاق کے طور پر اپنے اکائونٹ پر شیئر کردیا۔ اگرچہ انہوں نے اسے اپنے اکائونٹ سے ڈیلیٹ کردیا لیکن بہت زیادہ لوگ ان کی طرح اس کو بلا تصدیق پوسٹ کرتے رہے۔ اور اس سے شہریوں کی بدنامی ہوئی۔ انہوں نے تو معذرت کی لیکن اب تیر کمال سے نکال چکا تھا۔ ہمسائے ملک کے موقر جریدے ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ نے بھی اسے بلا تصدیق شائع کردیا۔
کتابوں کے میلے ساری دنیا میں ہی لگائے جاتے ہیں۔ جن میں شہری بہت شوق و ذوق سے شریک ہوتے ہیں۔ پچھلے سال مدینہ میں لگایا گیا کتب میلہ بہت زیادہ عوامی توجہ کا مرکز رہا اس کی وجہ میلے میں قدیم اور نادر کتب کی موجودگی تھی۔ سعودی عرب میں حرمین کی لائبریری میں موجود نادر نسخوں کو کتب میلے میں رکھا گیا ان میں 1286ھ میں چھپنے والا صحیح بخاری کا نسخہ اور مسند الموطا ہے جو پوری دنیا میں ایک ہی ہے۔ مسند الموطا 693 میں تحریر کیا گیا تھا اور یہ قلمی نسخہ ہے۔ کتابوں کے میلے میں اس طرح کے قدیم نسخوں کی موجودگی لوگوں کو اور زیادہ ان کی جانب متوجہ کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ کراچی کے میلے میں بھی اس طرح کے نادر نسخوںکو نمائش کے لیے رکھنا ایک اچھا قدم ہوگا۔