عافیہ کی رہائی کیلیے وائٹ ہاؤس میں درخواست دائر ۔امریکا نے وزیراعظم کے خط کا جوا ب نہیں دیا،وزارت خارجہ کا عدالت میں جواب

67

واشنگٹن/اسلام آباد(صباح نیوز+آن لائن) عافیہ کی رہائی کی لیے وائٹ ہاؤس میں درخواست دائر کردی گئی ،پاکستانی نژاد امریکی کمیونٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ پوری امید ہے صدر بائیڈن 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار منتقلی سے پہلے کوئی فیصلہ کریں گے جبکہ سینیٹر بشری انجم بٹ کی سربراہی میں واشنگٹن جانے والے پاکستانی وفد نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے سلسلے
میں امریکی ارکان پارلیمنٹ اورپاکستانی نژاد امریکی کمیونٹی کے ارکان سے ملاقاتیں کی ہیں، وفد نے عافیہ صدیقی سے بھی جیل میں ملاقات کی،سینیٹر طلحہ محمود کا کہنا ہے کہ عافیہ سے ہونے والی ملاقات حوصلہ افزارہی دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس کی سماعت کے دوران وزارت خارجہ کے نمائندے نے بتایا کہ وزیراعظم کی جانب سے ڈاکٹر عافیہ سے متعلق امریکی صدر کو لکھے گئے خط کا کوئی جواب نہیں آیا۔ تفصیلات کے مطابق امریکا میں 86 سال قید کی سزا کاٹنے والی پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے وائٹ ہائوس میں رحم کی درخواست دائر کردی گئی۔میڈیا رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں موجود ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ وکلا صدر جو بائیڈن پر زور دے رہے ہیں کہ وہ 20 جنوری کو اپنی مدت کے اختتام سے پہلے ڈاکٹرز کی رہائی کی اجازت دیں۔سینیٹر بشری انجم بٹ کی سربراہی میں ایک پاکستانی وفد نے حال ہی میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے امریکا کا دورہ کیا تھا، اس وفد میں سینیٹر طلحہ محمود اور ماہر نفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی بھی شامل تھے۔یہ کوشش اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں کی گئی ہے جس میں اس مقصد کے لیے امریکی قانون سازوں اور حکام سے ملاقات کا کہا گیا تھا۔ پاکستانی وفد نے واشنگٹن میں امریکی قانون سازوں سے بات چیت کی جن میں ایوان نمائندگان کی کمیٹی کے چیئرمین کانگریس مین جم میک گورن، کانگریس کی خاتون رکن الہان عمر اور کراچی میں پیدا ہونے والے ڈیموکریٹ سینیٹر کرس وان ہولن شامل ہیں۔ وفد نے جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے پرنسپل نائب معاون وزیر خارجہ الزبتھ ہورسٹ سے بھی ملاقات کی۔وفد نے ان ملاقاتوں کے دوران ممکنہ قانونی راہیں تلاش کیں اور عافیہ صدیقی کے لیے رحم کی اپیل کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ اس دورے میں سہولت فراہم کرنے والے پاکستانی نژاد امریکی کمیونٹی کے ارکان نے تصدیق کی کہ رحم کی درخواست وائٹ ہائوس میں جمع کرا دی گئی ہے۔کمیونٹی کے ایک رکن نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ صدر بائیڈن 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار منتقل کرنے سے پہلے کوئی فیصلہ کریں گے،وفد نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے فورٹ ورتھ ٹیکساس میں واقع فیڈرل میڈیکل سینٹر، کارسویل میں ملاقات بھی کی، جہاں خواتین قیدیوں کے لیے خصوصی طبی اور ذہنی صحت کی دیکھ بھال کی سہولت موجود ہے، یہ ملاقات 3 گھنٹے تک جاری رہی جس میں ماہر نفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی بھی موجود تھے۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے سینیٹر طلحہ محمود نے عافیہ صدیقی کے ساتھ ملاقات کو حوصلہ افزا قرار دیا، انہوں نے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صدر بائیڈن کے پاس معافی کی 60 سے زاید درخواستیں موجود ہیں جن میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی درخواست بھی شامل ہے، ہمیں امید ہے کہ ان کے کیس کو ترجیح دی جائے گی اور صدر اس پر ہمدردی کے ساتھ غور کریں گے۔امریکا میں قائم تنظیم اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا (آئی سی این اے) نے بھی وفد کی کچھ مصروفیات میں مدد کی۔سینیٹر کرس وان ہولن سے ملاقات کے بعد سینیٹر بشری انجم بٹ نے اس دورے کو وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے جاری سفارتی کوششوں کا حصہ قرار دیا۔وزیر اعظم شہباز شریف نے اس سے قبل اکتوبر 2024 میں صدر بائیڈن کو خط لکھ کر عافیہ صدیقی کی بگڑتی ہوئی صحت کی وجہ سے انسانی بنیادوں پر ان کے لیے معافی کی اپیل کی تھی۔ علاوہ ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس کی سماعت کے دوران وزارت خارجہ کے نمائندے نے بتایا کہ وزیراعظم کی جانب سے ڈاکٹر عافیہ سے متعلق امریکی صدر کو لکھے گئے خط کا کوئی جواب نہیں آیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی سے متعلق درخواست پر سماعت کی جس سلسلے میں نمائندہ وزارت خارجہ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور وکیل درخواست گزار عدالت میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت عدالت نے کہا کہ امریکا خودمختار ملک ہے ، ڈاکٹر فوزیہ کا ویزا مستردکرسکتا ہے، امریکا وزیراعظم کاویزا بھی مستردکرسکتا ہے مگر معاملات کو سفارتی سطح پر لے جانا ہوتا ہے۔ اس پر وکیل وزارت خارجہ نے عدالت کو بتایا کہ امریکا میں پاکستانی مشن نے وفد کے ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کے انتظامات مکمل کرلیے تھے، اس پر جسٹس اسحاق نے عدالت میں موجود ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ دستاویزات کے مطابق وفد تاخیر سے پہنچا مگر آپ کا سفیر کہاں تھا؟ ایسے معاملات کو ہمیشہ سفیر دیکھتے ہیں۔ دوران سماعت ڈاکٹر عافیہ کی بہن نے کہا کہ جب ایک ملک کاچیف ایگزیکٹو دوسرے ملک کے ایگزیکٹو کو خط لکھے تو جواب لازمی آتا ہے، اس پر نمائندہ وزارت خارجہ نے جواب دیا کہ وزیراعظم پاکستان کے امریکی صدر جو بائیڈن کو لکھے گئے خط کا کوئی جواب نہیں آیا۔ جسٹس اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیے کہ ملک کے ایگزیکٹو نے خط لکھا اور اس کا جواب نہیں آیا، اس کوکیا سمجھیں؟ امریکا میں پاکستانی سفیرکے وفدکو جو بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ ملاقات کرنی چاہیے تھی۔ عدالت نے امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ کی سزا معافی کی درخواست سے لے کر اب تک وزیراعظم اور وزیرخارجہ کے دوروں کی تفصیلات طلب کرلیں جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے احکامات واپس لینے کی استدعا کی۔ عدالت نے وزارت خارجہ سے عافیہ صدیقی کیامریکی وکیل کیڈیکلریشن پررپورٹ بھی طلب کی اور وزارت خارجہ کو معاملات کو سفارتی سطح پر دیکھنے کی ہدایت کی۔ بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی مزید سماعت 13 جنوری تک ملتوی کردی۔
عافیہ رہائی