ابھی تمام سیاسی تجزیے اور تبصرے ایک طرف کہ وہ کون سی قوتیں تھیںجنہوں نے 50 برس سے زائد عرصے تک اہل شام کی چھاتی میں بہنے والی ظلم کی اس تاریک ندی کارخ موڑ دیا جو اکثر ان کی پسلیاں توڑ کر باہر بہنے لگتی تھی اور ان کے پاس مایوسی سے اپنی کلائیوں کو اپنے ہی دانتوں سے کاٹنے کے علاوہ کوئی راہ نہیں بچتی تھی۔ ابھی تمام سیاسی تجزیے اور تبصرے ایک طرف کہ ہر شامی کے دل میں ماتم کناں اس پکار کے جواب میں عرصے سے خاموشی اختیار کرنے کے بعد وہ کیا عوامل تھے جو یکا یک متحرک ہوئے اور محض دس دنوں میں انقلابیوں اور مجاہدین نے بشار الاسد کی حکومت کو تہس نہس کر ڈالا اور اسے حکومت چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کردیا۔ ان تجزیوں سے زیادہ اہم تر یہ ہے کہ بشار کی حکومت کے خاتمے کے بعد کیا ہوگا؟
کس طرح مضبوط دیواروں والے مکانات اچانک بغیر کسی بڑی وجہ کے منہدم ہوجاتے ہیں بشار حکومت کو دیکھ لیجیے۔ خون ہی خون، تباہ شدہ مکانات اور بے گھر خاندان، شام ایک دردناک معاملہ ہے۔ جس تبدیلی سے شام دوچار ہے کیا یہ ایک ایسے سیاسی حل اور نئے دور کو تلاش کرنے کے لیے ہے جو مسلم ممالک میں قائم ان سیکولر سول حکومتوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوگا جنہیں استعماری کافروں اور ان کے ایجنٹوں نے سو برس پہلے اسلامی نظام خلافت کا خاتمہ کرکے قائم کیا تھا جس کے بعد تمام اقوام مسلمانوں پر اس طرح ٹوٹ پڑیں جیسے بھوکے کھانے کے دسترخوان پر ٹوٹتے ہیں جس کے بعد امت کو پھر عزت، وقار اور چین سے رہنا نصیب نہ ہوسکا۔ کیا اس تبدیلی کے بعد اہل شام پھر اس عزت والے بابرکت راستے پر قدم رکھ کر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی طرف آگے بڑھ سکیں گے ؟ یہی وقت کی پکار اور یہی عصر حاضر کا اہم ترین سوال ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا اور خطے میں اس کے آلہ کار شام کو استعمار کی گرفت سے آزاد ہونے میں مزاحم ہوں گے۔ وہ انقلابیوں کو ایسی تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے بے وقوف بنانے کی کوشش کریں گے جس سے شام میں کوئی جوہری اور بنیادی تبدیلی نہ آسکے اور ریاست کے سیکو لرازم کے ایجنڈے پر کوئی فرق نہ پڑسکے۔ اگر ایسا ہوگیا تو شام کا انقلاب محض ایک ممی بن کررہ جائے گا۔ تاریخ کے میوزیم میں ایک بے جان وجود۔ انقلابیوں اور مجاہدین کو ان سازشوں اور منصوبوں سے آگاہ اور محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی۔
حقیقی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ شا م کی حقیقت کو مکمل طور پر تبدیل کردیا جائے ورنہ یہ تبدیلی اور انقلاب محض آرائشی رہے گا۔ حقیقی تبدیلی کے لیے روحانی اور اخلاقی خالی پن میں زندگی تلاشتے سیکولرازم کے تمام ستونوں، ساختوں، آئینوں اور بیانیوں کو گرا کر انہیں اسلامی نظام سے بدلنا ہوگا۔ نیچے سے اوپر تک ریاست کو خالص اسلامی ہونا پڑے گا۔ جس میں کوئی گندگی اور نجاست نہیں ہوگی۔ جس میں خلافت راشدہ کی مثل حکمران عوام کے خلیل ہوں گے۔
ایک سیکولر ریاست ہو یا اس کی جگہ سیکولرازم اور اسلام کی مخلوط اور ہائبرڈ ریاست ہو دونوں ہی صورتوں میں حالات جوں کے توں رہیں گے۔ اسلام میان حق وباطل شرکت کا قائل نہیں۔ اس کا مطلب 56 اسلامی ملکوں کی طرح اسلام کے کمزور اور لاغر سے متبادل کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کا مطلب یہی ہوگا کہ امریکا کی سربراہی میں استعمار ہمارے ملکوں، فیصلوں اور دولت پر حاوی رہے گا۔ اس کا مطلب یہی ہوگا بے شمار اقتصادی تباہیاں، چھوٹی بڑی جنگیں، بد امنی، دہشت گردی، اخلاقی ابتری، شدید اور ہمہ گیر عصبیت اور لڑائیاں، ناانصافی اور بدعنوانی، ذلت، پسپائی۔
امریکا اور اسلامی ممالک میں اس کے معاون حکمرانوں کے پاس جو قوت اور آلات ہیں خاص طور پر شام میں انقلاب کے محرک مختلف دھڑوں کے رہنمائوں کے ساتھ انہوں نے جو تعلقات استوار کیے ہیں وہ تبدیلی کو بشار حکومت میں کچھ ردو بدل کے ساتھ محدود کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں اس طرح کہ ریاست کا سابقہ جوہر اور سیکولر نظام کچھ زیادہ متاثر نہ ہو۔ یہ ہدف اسلامی ٹچ کی صورت میں بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اب جب کہ دس دن سے زائد گزر چکے ہیں، شام کی صورتحال کو بغور دیکھنے والے جانتے ہیں کہ بشار حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے والے محض امریکا اور ترکی کے صدر نہیں ہیں جو سیکولر تبدیلی کو ایک کاندھے سے دوسرے کاندھے پر منتقل کرنا چاہتے ہیں، محاذ آرائی اور جنگ میں وہ لوگ بھی شامل ہو گئے ہیں جو بشار حکومت کے ظلم وستم کا شکار رہے ہیں، جو نظام کو اسلام اور شامی مسلمان عوام کی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کو انقلاب کے بعد بروئے کار آنا اور آئندہ کے نظام کو سنبھالنا ہو گا تاکہ ان کی قربانیاں ضائع نہ ہوں، یہ جدوجہد کار لاحاصل نہ بن سکے۔ اور وہ امت کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی خوش خبری سنا سکیں۔
موجودہ جدوجہد میں انقلابیوں اور اہل شام نے جو قربانیاں دی ہیں دنیا میں اس کی مثالیں کم کم ہی دستیاب ہیں۔ جن جرائم، ناانصافیوں اور بے رحمانہ سلوک اور جرائم کا وہ شکار ہوئے ہیں وہ تصور سے باہر ہے۔ ان کی قربانیوں کو ہوائوں کی نذر نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی وقت کی بھٹی میں گم ہو جانا چاہیے۔ ایسا تب ہی ممکن ہے جب انقلابی شام کو اسلام کی منزل سے ہم کنار کرسکیں۔ دنیا کو ایک مرتبہ پھر خلافت راشدہ کا نظارہ کرا سکیں۔ وہ عزم کریں کہ اس وقت تک آرام نہیں کریں گے اور نہ کسی کو آرام سے بیٹھنے دیں گے جب تک اسلام کی منزل کو حاصل نہ کرلیں۔ یہ ہدف استعمار کے ایجنٹ حکمرانوں سے تعلقات منقطع کیے بغیر حاصل نہیں ہوگا، ان پر بھروسا اور اعتماد ترک کیے بغیر حاصل نہیں ہوگا، غیر ملکی سرمایہ کاری کا شکار نہ ہوئے بغیر حاصل نہیں ہوگا۔ صرف اور صرف امت کے بیٹوں اور مجاہدین پر بھروسا کیے بغیر حاصل نہیں ہوگا۔
سلام ہو اس مجاہد پر جس نے حمص کی آزادی کے بعد نعرہ لگایا تھا کہ ہم اس وقت تک آگے بڑھتے رہیں گے جب تک ہم غزہ نہ پہنچ جائیں اور وہاں اسلام کی حکومت اور خلافت راشدہ کی واپسی کا اعلان نہ کردے۔ یہ صرف ایک مجاہد کے دل کی آواز نہیں امت مسلمہ کا ہر فرد اسی جذبے سے سرشار ہے۔ ان شاء اللہ شام کی تبدیلی اس کا نقش اولین ہوگی۔ ’’اور ہم چاہتے تھے کہ جو لوگ ملک میں کمزور کردیے گئے ہیں ان پر احسان کریں اور ان کو پیشوا بنائیں اور انہیں (ملک کا) وارث کریں‘‘۔ (القصص: 5)