دسمبرکا مہینہ خونچکاں یادوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔ سولہ دسمبر کو رونے اور ماتم کرنے کو مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کا غم ہی کیا کم تھا کہ پشاور آرمی پبلک اسکول کا واقعہ اس زخم پر نمک چھڑک گیا اور یوں دو غم باہم گڈ مڈ ہو کر رہ گئے۔ اب اگر اس دن کچھ لوگ ملول اور رنجور دکھائی دیتے ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ کس غم کو چھپایا جا رہا اور کس کا ماتم کیا جا رہا ہے؟ مشرقی پاکستان کے زخم کو تینتالیس برس بیت گئے تو سانحہ آرمی پبلک اسکول کو دس برس کا عرصہ گزر گیا۔ دو مختلف چیلنجز اور مختلف حالات کے باعث رونما ہونے والے ان سانحات کے بطن سے یہ سوال پیدا ہوتا رہے گا کہ کیا ان حادثوں سے کوئی سبق سیکھا گیا ؟۔ لمحہ بھر کو بھی محسوس نہیں ہوتا کہ ان واقعات سے کوئی سبق سیکھا گیا ہو، کیونکہ تینتالیس برس گزریں یا دس سال مگر پرانی غلطی دہرانے کی عادت زندہ وبیدار ہے۔ مشاہد حسین سید بجا طور پر کہہ رہے ہیں کم ازکم غلطیاں تو نئی کریں۔ اچھا ہے اگر نئی غلطی ہوگی تو قوم کو کچھ نیا پن محسوس ہو گا اور اُکتاہٹ بھی محسوس نہیں گی۔ گوکہ بہت سے واقعات کی چشم دید گواہ نسل اب آسودہ خاک ہوچکی ہے مگر نئی نسل نے تاریخ کو آج کے حالات، رویوں اقدامات اور فیصلوں کی دوربین میں دیکھنا سیکھ لیا ہے۔ ان کے لیے ماہرین نصاب کا ترتیب وتدوین کردہ ایک مطالعہ پاکستان کتابی شکل میں ہے اور ایک مطالعہ پاکستان عملی شکل میں ان کی نظروں کے سامنے مدون ہورہا ہے۔ کتاب میں ان کے اسلاف کا ماضی دفن ہے اور لمحہ ٔ موجود میں ان کا حال اور مستقبل دکھائی دے رہا ہے۔ اب وہ کتاب کو دیکھیں یا اپنی شہروں کو اپنے گردپیش کو یا اپنے ہمسایہ ملکوں کو، دور دیس جابسنے والے اپنے عزیز واقارب کو دیکھیں یا صحافی نامی بیانیہ ساز مشینوں کی داستانیں سنیں جو سرشام ہی ٹی وی اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ گمان گزرتا ہے کہ یا تو یہ خود کسی مریخ کی دنیا سے بھول کر انسانوں کے اس نگر میں آئے ہیں یا وہ جس پاکستان کی کہانیاں سناتے ہیں کہ جو مریخ پر آباد ہے۔ مثبت رپورٹنگ کا یہ منظر صرف کبوترکی بند آنکھوں میں ہی دیکھا جا سکتا ہے جب وہ مسائل اور خطرات کی بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتا ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے ہمارے پرائمری اسکول کے دن تھے جب بہت محنت کے ساتھ ایک سویلین وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے گلے میں رسی ڈال کر انہیں پھانسی گھاٹ کی طرف گھسیٹا جا رہا تھا۔ جرنیل، جج، سیاست دان، صحافی سب مل کر اس رسی کو کھینچ رہے تھے اور پھر ڈھونڈ ڈھانڈ کر نواب احمد خان کیس نکالا گیا۔ ایف آئی آر میں وقت کے وزیر اعظم کا نام لکھوایا کر اس امید کے ساتھ ’’تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے‘‘ سربہ مہر کر دیا گیا۔ یوں ہونی ہو کر رہی اور سب نے مل جل کر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیا اس کے باوجود ملک کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا اور ملک پہلے سے زیادہ بدحال اور کمزور ہوتا چلا گیا۔ آئین جو ملک کی اکائیوں کے درمیان ذمہ داریوں اور حقوق وفرائض کا تعین کرتا اور حدِ فاصل قائم کرتا تھا کاغذ کا ایک پلندہ بن کر رہ گیا اور جنرل ضیاء الحق منہ پکا بنا کر کہتے رہے کہ آئین معطل ہوا منسوخ نہیں۔ آج ہم دہائیوں سے عملی زندگی میں سرگرم ہیں تو پھر وہی کہانی وہی غلطی دہرانے کی ریہرسل ہو رہی ہے۔ کچھ ایسا ہی کرنے کے ارادے باندھے جا رہے ہیں۔
ملک کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف نواب محمد احمد خان قتل طرز کی ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے۔ علیمہ خان کہہ رہی ہیں کہ ان کے بھائی کی جان کو خطرہ ہے۔ وہ صاف لفظوں میں بتا چکی ہیں کہ ان کے بھائی کو سلو پوائزن کے ذریعے ہارٹ اٹیک کا شکار بنایا جا سکتا ہے۔ قوم کے ڈھائی سال اور بے تحاشا قومی وسائل اس بات پر صرف کیے جا چکے ہیں کہ عمران خان فتنہ اور انتشاری ہے اور اگر یہ شخص قومی منظر سے غائب ہوجائے تو پاکستان سال بھر میں مسائل کے بھنور سے نکل آئے گا اور دوبارہ کبھی بھی مسائل کا شکار نہیں ہوگا۔ اس کہانی پر ضرور یقین کیا جا سکتا تھا اگر مائنس ذوالفقار علی بھٹو ماڈل کا انجام تاریخ میں محفوظ نہ ہوتا۔ بھٹو سے پہلے اور بعد کے منظر نامے میں فرق صرف اتنا تھا کہ پہلے ایک ذہین اور مشہور شخصیت کو سیلوٹ کرنا پڑتا تھا بعد میں محمد خان جونیجو کو عبوری طور پر اور اس کے بعد طوعاً وکرہاً ہی سہی مگر بھٹو کی صاحبزادی کو جو ذہانت اور قدکاٹھ میں ظاہر ہے والد سے کم تھیں سیلوٹ کرنا پڑا۔ اب اگر اس غلطی کو دہرایا جاتا ہے تو حالات یکسر مختلف ہوسکتے ہیں۔
معاشرے میں جس قدر تقسیم بڑھ چکی ہے اور جس قدر شعور آچکا ہے اس میں عوام کی رائے اوران کی پسند وناپسند کو ٹھکرانے کا فیصلہ پچھتر سال کا پورا نصاب ہی بدل سکتا ہے۔ پچتر سالہ تاریخ کے ہیرو اور ولن بدل سکتے ہیں۔ ہیرو اور ولن کے پیمانے بدل سکتے ہیں۔ ایک ہی معاشرے میں سرکار اور سسٹم کے ہیروز الگ ہوں گے اور عوام کے ہیروز الگ ہوں گے۔ سسٹم کے ہنسنے اور رونے کے دن اپنے ہوں گے اور عوام کے اپنے دن ہوں گے۔ کسی معاشرے کے لیے اس قدر گہری خلیج سے زیادہ خطرناک بات کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی۔ اس وقت ملک کے مقبول لیڈر سے سسٹم کو ایک عوامی این آر او ملنا ناگزیر ہے۔ یہ این آر او حاصل کیے بغیر کوئی حادثہ ہوگیا جس کی ڈگڈگی عہد حاضر کے ’’شیخ رشید‘‘ فیصل واوڈا کے ذریعے بجائی جا رہی ہے تو پھر سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ طاقت، ڈنڈے اور نت نئے سخت گیر قوانین کے ذریعے سروں پر حکمرانی کی جا سکتی ہے مگر دلوں پر حکومت نہیں ہو سکتی۔ ایسے میں لیڈر زمین کے اندر سے بھی بولتا اور اعصاب کی سواری کرتا رہے گا۔ تب لوگ بھی اپنا دل زمین کے اندر رکھ کر بھول جاتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد سندھ میں ہونے والے ردعمل نے حکمرانوں کے اعصاب اس قدر شل کر دیے کہ ایک روز جنرل ضیاء الحق بنفس نفیس سندھ کے قوم پرست لیڈر سائیں جی ایم سید کی مزاج پرسی کے لیے اسپتال جا پہنچے اور یہ وہ وقت تھا جب سائیں جی ایم سید کی تازہ تصنیف ’’اب پاکستان کو ٹوٹ جانا چاہیے‘‘ سندھی نوجوانوں میں گرم کیک کی طرح مقبول ہو رہی تھی مگر بھٹو کے قتل کی سزا تھی کہ جنرل ضیاء الحق سائیں جی ایم سید کی کتاب اور ان کی خواہشات اور ارادوں کو بھول کر ان سے مدد لینے پر مجبور ہورہے تھے۔
اسی طرح جونیجو مرحوم کی وزارت عظمیٰ میں سندھ کے حوالے سے ایک جملہ مشہور تھا کہ
’’ہم سندھ والوں کی قسمت بھی کیا عجیب ہے کہ ہم نے زندہ انسان کو اسلام بھیجا تو واپس تابوت بھیج دیا گیا اور ہم نے لاش کو بھیجا تو وہ وزیر اعظم بن کر آگیا‘‘۔ مائنس بھٹو کے چکر میں بھی عجیب کھیل کھیلے گئے۔ حنیف رامے کی مساوات پارٹی، کھر اور جتوئی کی فخریہ پیشکش نیشنل پیپلز پارٹی، خورشید حسن میر کی جمہوری پارٹی اور آخر پر غیر جماعتی الیکشن مگر نتیجہ کیا نکلا؟ مائنس بھٹو کے نظریہ ضرورت سے پیدا ہونے والے غیر جماعتی الیکشن میں سامنے آنے والے وڈیروں نے واشنگٹن کے بادنما کو دیکھتے ہی پیپلز پارٹی کا رخ کرنا شروع کیا اور غیر جماعتی الیکشن کا سجا سجایا کیمپ چند سال میں ویران ہوگیا اور اس کے بعد بھٹو اپنی بیٹی کی شکل میں قبر سے حکومت کرنے لگے۔ پرویز خٹک اور جہانگیر ترین آج کے حنیف رامے اور مولانا کوثر نیازی ہی تو ہیں اور آج کے فارم سینتالیس کے الیکشن جنرل ضیاء الحق کے غیر جماعتی الیکشن اور ریفرنڈم کی حکمت عملی کا اعادہ ہیں۔ اگر کہانی وہیں سے شروع ہونی ہے جہاں ایک بار ناخوش گوار موڑ دے کر چھوڑ دی گئی تھی تو پھر نیا کیا ہوا اور پھر قوم ان بیانیوں اور سہانے سپنوں کو کیسے قبول کرے؟ ایک طرف نوجوان کتابی تاریخ پڑھ رہے ہیں تو دوسری طرف وہی نوجوان حالات کی کھڈی سے واقعات اور اقدامات کا کپڑا بننے اور نکلنے کا عمل دیکھ رہے ہیں۔