پاک فوج کی فارمیشن کمانڈر کانفرنس نے اسلام آباد میں اعلیٰ سطحی غیر ملکی وفود کے تحفظ کے لیے پاک فوج کی تعیناتی پر کیے جانے والے پروپیگنڈے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پروپیگنڈہ بعض سیاسی عناصر کے مذموم عزائم کے تسلسل کی عکاسی کرتا ہے۔ اس پروپیگنڈے کا مقصد پاکستان کے عوام اور مسلح افواج کے درمیان دراڑ ڈالنا ہے۔ ایسی مذموم کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔ ضروری ہے کہ حکومت بے لگام، غیر اخلاقی آزادیٔ رائے کی آڑ میں زہر اگلنے، جھوٹ بولنے اور معاشرتی تقسیم کے بیج بونے کے خاتمے کے لیے سخت قوانین و ضوابط بنائے اور ان پر عمل کر ائے۔ سیاسی و مالی فوائد کے لیے جعلی خبریں پھیلانے والوںکی نشان دہی کر کے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ (روزنامہ جنگ کراچی: 6 دسمبر 2024ء)
اسلامی تاریخ میں مسلمانوں نے ہمیشہ فوج کے ادارے سے محبت کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی تاریخ کے بہترین ادوار فتوحات کے ادوار ہیں اور ان ادوار میں اسلامی فوج نے اہم کردار اداکیا ہے۔ سیدنا عمرؓ کے زمانے میں مسلمانوں نے وقت کے دوسپر پاورز کو منہ کے بل گرایا۔ اس سلسلے میں اسلامی فوج نے اہم کردار ادا کیا۔ طارق بن زیادؒ نے صرف 18 ہزار کے لشکر کے ساتھ اسپین فتح کیا۔ طارق بن زیادؒ کی مسلم فوج نے ایک لاکھ کے لشکر کو شکست دی۔ محمد بن قاسمؒ نے صرف 17 ہزار کے لشکر کے ساتھ سندھ فتح کیا۔ محمد بن قاسمؒ کے لشکر نے راجا داہر کی ایک لاکھ فوج کو شکست ِ فاش سے دوچار کیا۔ بابر کے پاس صرف 8 ہزار کی فوج تھی مگر بابر نے 8 ہزار کی فوج سے 19 کروڑ نفوس پر مشتمل ہندوستان کو فتح کیا۔ چنانچہ مسلم معاشرے میں کوئی شخص اپنی فوج کو ناپسند کر ہی نہیں سکتا۔ یہ بات مسلمانوں کے ڈی این اے کا حصہ ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ اسے پہلے دن سے ہندوستان جیسے کم ظرف ملک کی بے لگام دشمنی کا سامنا ہے۔ چنانچہ پاکستان اپنی تاریخ کے ابتدا سے ’’فلاحی ریاست‘‘ کے بجائے ’’دفاعی ریاست‘‘ بنا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ ’’دفاعی ریاست‘‘ میں فوج کی اہمیت غیر معمولی ہوتی ہے۔ چنانچہ دفاعی ریاست میں کوئی سیاست دان یا سیاسی پارٹی قوم اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی جرأت ہی نہیں کرسکتی۔ پاک فوج کے ساتھ قوم کی محبت اس امر سے بھی ظاہر ہے کہ ہم غریب ملک ہونے کے باوجود اپنے بجٹ کا 25 فی صد فوج کے لیے مختص کرتے ہیں اور اس بجٹ پر بھوکی ننگی قوم کبھی معترض نہیں ہوئی ہے۔ قوم نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھے ہیں مگر فوج کو درکار وسائل فراہم کیے ہیں۔ چنانچہ فارمیشن کمانڈر کی کانفرنس کا یہ خیال درست نہیں ہے کہ کوئی شخص یا سیاسی جماعت قوم اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے کے لیے کوشاں ہے۔ اگرچہ فارمیشن کمانڈرز کی کانفرنس نے اس سلسلے میں کسی کا نام نہیں لیا مگر شاید کانفرنس کا اشارہ عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کی جانب ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ پاکستان میں وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ قوم اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش یا سازش کی ہے؟
اس سلسلے میں پاکستان کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ یہ ایک تاریخی اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان اور قیامِ پاکستان میں کسی جرنیل یا کسی فوج کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس وقت کوئی پاک فوج اور پاک فوج کا کوئی جرنیل موجود ہی نہیں تھا۔ پاکستان سول قیادت اور عوام نے اپنی قوتِ بازو سے بنایا تھا اور پاکستان میں کسی فوجی بالادستی کی اعشاریہ ایک فی صد بھی گنجائش نہیں تھی۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کے حصے میں جو جرنیل آئے انہوں نے ملک کی تاریخ کے آغاز ہی سے ملک پر ’’جرنیلی‘‘ یا ’’فوجی‘‘ بالادستی کے لیے ہاتھ پائوں مارنے شروع کر دیے۔ جنرل ایوب نے مارشل تو 1958ء میں لگایا تھا مگر امریکا کی خفیہ دستاویزات کے مطابق وہ 1954ء ہی سے امریکیوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں کو ایک گھنائونی اور رکیک سازش کے تحت باور کرا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جنرل ایوب امریکیوں سے کہہ رہے تھے کہ فوج سیاست دانوں کو ہرگز ملک تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ فرض کیجیے جنرل ایوب کی بات درست تھی، پاکستان کے سیاست دان واقعتا نااہل تھے تو کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ فوج اقتدار پر قبضہ کر لے۔ امریکا میں فوجی اسٹیبلشمنٹ بڑی طاقت ور ہے مگر اس نے آج تک اقتدار پر قبضہ نہیں کیا۔ ہندوستان کی فوج 15 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے مگر ہندوستان کے کسی جرنیل کو آج تک سیاست دانوں کی نااہلی کی آڑ میں اقتدار پر قبضے کی جرأت نہیں ہوئی۔ چین کی فوج دنیا کی دوسری بڑی فوج ہے مگر چین کی فوج نے آج تک اقتدار پر قبضہ نہیںکیا۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کے جرنیل پہلے دن سے پاک فوج کو برٹش آرمی کا تسلسل بنائے ہوئے تھے۔ وہ ’’آقا‘‘ اور ’’غلام‘‘ کی نفسیات کے تناظر میں خود کو اور قوم کو دیکھ رہے تھے۔ اس تناظر میں وہ خود ’’آقا‘‘ اور قوم ان کی ’’غلام‘‘ تھی۔ یہ ہے وہ تناظر جس نے قوم اور فوج کے تعلق میں دراڑ ڈالی ہے اور اس کے ذمے دار صرف جرنیل ہیں۔ جنرل ایوب 1958ء میں ملک پر مارشل لا مسلط کرکے قوم اور فوج کے تعلق میں دوسری دراڑ ڈالی۔ انہوں نے مارشل لا لگا کر فوج کی دائمی بالادستی کی راہ ہموار کردی۔ جنرل ایوب صرف ملک کے ایک جرنیل تھے، ان کے مقابلے پر فاطمہ جناح ’’قائداعظم کی بہن‘‘ اور ’’مادرِ ملت‘‘ تھیں مگر اس کے باوجود جنرل ایوب نے ملک کے اخبارات میں آدھے، آدھے صفحے کے اشتہارات شائع کرائے ان اشتہارات میں فاطمہ جناح کو ’’بھارتی ایجنٹ‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ جنرل ایوب کی اس ’’پست ذہنیت‘‘ نے فوج اور قو م کے درمیان ایک بڑی دراڑ ڈالی اس کے باوجود 1965ء کی جنگ ہوئی تو پوری قوم جنرل ایوب کی شیطنت کو بھول کر فوج کی پشت پر کھڑی ہوگئی۔ مگر جنرل ایوب نے اس بات کی قدر ہی نہیں کی۔ جنرل ایوب کے خلاف بالآخر ایک بڑی عوامی تحریک چلی تو یہاں سے ملک میں ’’سول بالادستی‘‘ کی راہ ہموار ہو جانی چاہیے تھی مگر جنرل ایوب جاتے جاتے اقتدار جنرل یحییٰ کے سپرد کر گئے۔ جنرل یحییٰ نے 1970ء میں انتخابات کرائے جن میں شیخ مجیب الرحمن کی ’’عوامی لیگ‘‘ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ چنانچہ جنرل یحییٰ کو چاہیے تھا کہ وہ اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کر دیتے مگر انہوں نے ایسا کرنے کے بجائے مشرقی پاکستان کے لوگوں پر فوجی آپریشن مسلط کر دیا۔ اس آپریشن نے قوم اور فوج کے درمیان ایسی دراڑ ڈالی کہ پاکستان ٹوٹ گیا اور ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے ہندوستان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ذلت قوم پر مسلط کر دی۔
1977ء میں انتخابات ہو گئے تو بھٹو نے ان انتخابات میں دھاندلی کی جس کے باعث بھٹو کے خلاف ایک بڑی تحریک چلی۔ اس تحریک نے بھٹو کو حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پی این اے کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کر دیا۔ ہمیں جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر غفور نے خود بتایا کہ بھٹو مذاکرات میں قومی اسمبلی کی 33 نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرانے پر آمادہ ہو گئے تھے مگر جنرل ضیا الحق میدان میں کود پڑے اور انہوں نے اقتدار پر قبضہ کر کے کچھ عرصے بعد بھٹو کو جھوٹے مقدمے میں پھانسی پر لٹکا دیا جس سے قوم اور فوج کے درمیان ایک اور بڑی دراڑ پیدا ہوئی۔
میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں جنرل پرویز کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا اور وزیراعظم کی حیثیت سے انہیں ایسا کرنے کا اختیار حاصل تھا مگر جنرل پرویز مشرف نے اپنی برطرفی کو قبول نہ کیا اور فوج نے نواز شریف کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس سے قوم اور فوج کے درمیان ایک اور بڑی دراڑ پیدا ہوگئی۔
2024ء کے انتخابات تو کل ہی کی بات ہیں۔ ان انتخابات میں تحریک انصاف دو تہائی اکثریت حاصل کر رہی تھی مگر اسٹیبلشمنٹ نے انتخابات کو اغوا کر لیا۔ اس نے ہارے ہوئے نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کو جتا دیا۔ کراچی میں تحریک انصاف پہلے، جماعت اسلامی دوسرے اور پیپلزپارٹی تیسرے نمبر پر تھی۔ ایم کیو ایم کہیں چوتھے اور کہیں پانچویں نمبر پر تھی مگر جرنیلوں نے ایم کیو ایم کو نمبر ایک پارٹی بنا کر کھڑا کر دیا۔ اس صورت حال نے قوم اور فوج کے درمیان بڑی نہر جیسی دراڑ پیدا کر دی۔ مگر دراڑ کے ذمے دار نہ عمران خان ہیں نہ تحریک انصاف، اس دراڑ کی ذمے دار جماعت اسلامی ہے نہ کوئی اور اس کے ذمے دار ایک ہزار فی صد جرنیل ہیں مگر ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ کے مصداق جرنیل قوم اور فوجی کے تعلقات کی خرابی کی ذمے داری قبول کرنے کے بجائے یہ بوجھ بھی ’’دوسروں‘‘ پر ڈال رہے ہیں۔