اگر کوئی گھر پیار اور محبت کے باغ سے آراستہ ہو تو گھر کا حسن بے نظیر ہوجاتا ہے۔ محبت کے باغ کی سحر انگیز ہوائیں گھر والوں کے مشام جاں کو معطر رکھتی ہیں، اور انہیں نفس نفس زندگی کا پیغام پہنچاتی رہتی ہیں۔
محبت کے باغ میں بہت سارے درخت بھلائی اور احسان کے بھی ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے سے محبت کے نئے نئے پودے اگتے ہیں، اور احسان ماننے اور بھلائی کی قدر کرنے سے وہ پودے نشوونما پاتے اور پھولتے پھلتے ہیں۔ محبت کے ان ثمر بار درختوں میں دونوں کی حصے داری ہوتی ہے، اور اگر وہ درخت مرجھا جائیں تو دونوں کا نقصان ہوتا ہے۔
احسان کرنا بڑی خوبی ہے، اور احسان ماننا بھی بڑی خوبی ہے، اور یہ دونوں خوبیاں الگ الگ توجہ چاہتی ہیں۔ احسان کرنے کے لیے دل کی کشادگی مطلوب ہوتی ہے اور احسان ماننے کے لیے بھی دل کی کشادگی درکار ہوتی ہے، لیکن دونوں کا تعلق دل کے الگ الگ گوشوں سے ہوتا ہے، اور جس دل کے یہ دونوں گوشے کشادہ ہوں اس دل کی وسعت وعظمت بے مثال ہوتی ہے۔
احسان کرنے اور احسان ماننے سے محبت کا جو باغ تیار ہوتا ہے، احسان جتانے سے وہ تباہی کی زد میں آجاتا ہے، آنا فانا احسان اور بھلائی کے سارے پودے مرجھانے لگتے ہیں، اور دیکھتے دیکھتے محبت کا باغ خزاں رسیدہ اور ویران ہوجاتا ہے۔ احسان کرنے والے کو اگر معلوم ہوجائے کہ ایک معمولی سا جملہ کس طرح اس کی بڑی بڑی نیکیوں اور ناقابل فراموش قربانیوں کو مٹی میں ملادیتا ہے، تو وہ اپنی نیکی کو خود بھول جانا پسند کرے، تاکہ غلطی سے بھی ایسا لفظ اس کی زبان سے نہ نکلے جس میں احسان جتانے کا ذرہ برابر شائبہ ہو۔
جس لمحے احسان جتانے کا عمل شروع ہوتا ہے، اسی لمحے احسان ماننے کا سلسلہ رک جاتا ہے، اور لگتا ہے کہ جیسے احسان اور بھلائی کا کوئی معاملہ ہوا ہی نہیں تھا۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سارے گھروں میں نفرت کی بیماری احسان جتانے کے راستے سے آتی ہے، اور اس طرح آتی ہے کہ بہت سارے صحت مند دلوں کو بیمار کردیتی ہے، اور برسوں گھر کی فضا ناسازگار رہتی ہے۔
احسان یاد دلانا صرف اللہ کے شایان شان ہے، پیغمبر بھی اللہ کے احسانات ہی یاد دلاتے ہے۔ انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ سب اللہ کا دیا ہوا ہے، کسی انسان کو زیب نہیں دیتا ہے کہ وہ اللہ کی عطا کی ہوئی بہت ساری نعمتوں میں سے کچھ اللہ کے دوسرے بندوں کو دے اور پھر احسان جتاکر انہیں اذیت کا نشانہ بنائے۔
احسان جتانا یقیناً ایک بری خصلت ہے، اللہ پاک نے قرآن مجید میں اس سے بچنے کی تلقین کی ہے، اس برائی کی مختلف نیتیں اور صورتیں ہوسکتی ہیں، کبھی سامنے والے کے دل کو زخمی کرنے اور اس کی عزت نفس کو مجروح کرنے کے لیے احسان جتایا جاتا ہے، تو کبھی محض اپنی انا اور جذبہ نام ونمود کی تسکین مقصود ہوتی ہے، کبھی غصے اور شدید ناراضگی کی حالت میں ایسی بات زبان سے نکل جاتی ہے، اور کبھی محض فضول گوئی کی عادت نادانستہ یہ حماقتیں سرزد کراتی ہے۔ کبھی آدمی سامنے احسان جتاتا ہے، تو کبھی غائبانے میں کسی پر اپنے احسانوں کا ذکر کرتا ہے، اور بات متعلقہ فرد تک پہنچ جاتی ہے۔ قباحت تو کم وبیش ان سب صورتوں میں پائی جاتی ہے، تاہم نیت کی خرابی اور لہجے کی زہر ناکی اس قباحت کو بہت بڑھا دیتی ہے۔ غیرت مند انسان کے لیے تو کسی کے احسان کا بار اٹھانا اپنے آپ میں مشکل ہوتا ہے، اور اس پر جب کوئی احسان بھی جتائے تو بے شک دل چھلنی ہوجاتا ہے۔
احسان جتانا بہت بری بات ہے، تاہم مختلف واقعات کا تجزیہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر بھی پہنچا ہوں کہ احسان جتانے والے سے درگزر کرنا اور اس کی تکلیف دہ غلطی کے باوجود اس کے احسان کو نہ بھلانا ایک بڑی خوبی ہے، خاص طور سے اگر یہ معلوم ہوجائے کہ احسان جتانے والا بدنیت اور بدطینت نہیں ہے، بلکہ نادانی کی کیفیت میں اس سے یہ حرکت سرزد ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بعض لوگ احسان تو پورے خلوص دل کے ساتھ کرتے ہیں، لیکن ان کی نادان طبیعت سے اپنی نیکی کی حفاظت نہیں ہوپاتی، اور اس کے لیے انہیں دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ احسان جتانے والے سے درگذر کرکے ہم اپنے دل کے ایک اور گوشے کی کشادگی کا ثبوت پیش کرتے ہیں، دل کی یہ کشادگی محبت کے باغ کو مرجھانے سے بچالیتی ہے۔ ناراض دل کو تھوڑا سمجھا بجھا کر ہم اپنے گھر کی فضا خوش گوار رکھ سکتے ہیں، اور خود ردعمل کا شکار ہوجانے اور پھر احسان فراموشی کی پستی میں گرجانے سے بچ جاتے ہیں۔ احسان جتانے والے کو اگر یہ احساس ہوجائے کہ اس کی نادانی کے باوجود اس کا لگایا ہوا نیکی کا پیڑ ہنوز زندہ ہے، اور اس کی حفاظت اس نے کی ہے جس کو اس نے احسان جتاکر تکلیف دی، تو اس کے لیے ندامت اور توبہ کے راستے روشن ہوجاتے ہیں۔ اندھیری راتوں میں اپنے حصے کی شمع شاید اس طرح بھی روشن کی جاتی ہے۔
یاد رہے کہ لوگوں کی احسان فراموشی کے باوجود احسان کرتے رہنا بہت بڑی خوبی ہے، اور کسی کے احسان جتانے کے باوجود اس کے احسان کو یاد رکھنا بھی بہت بڑی خوبی ہے۔