جاپان اور جنوبی کوریا مجوزہ سمٹ: امکانی پہلو

363

جنوبی کوریا میں صدر یون سک یول کے مارشل لا کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے خطے میں سیاسی اور سفارتی سطح پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ داخلی انتشار کے ساتھ ساتھ صدر کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد اور ان کے دفتر پر چھاپا واضح کرتے ہیں کہ یہ معاملہ صرف جنوبی کوریا تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ اس کے اثرات بین الاقوامی تعلقات پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ اس بحران کے دوران جاپانی وزیراعظم شیگیرو اشیبا کا بیان ایک متوازن رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے جنوبی کوریا کے اندرونی معاملات پر براہ راست تبصرے سے گریز کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں پیش رفت کو متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم، انہوں نے اس معاملے پر نظر رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ حالات کے مطابق مناسب اقدامات کیے جا سکیں۔ 2025 میں جاپان اور جنوبی کوریا کے درمیان ہونے والے سربراہ اجلاس کی اہمیت اس صورتحال میں اور بھی بڑھ گئی ہے۔ یہ اجلاس نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئے دور میں داخل کرنے کا موقع فراہم کرے گا بلکہ خطے میں استحکام کے لیے بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ جاپانی قیادت کا یہ عزم کہ موجودہ بحران اس اجلاس کو متاثر نہیں کرے گا، سفارتی معاملات میں جاپان کی مستقل مزاجی کو ظاہر کرتا ہے۔

اس کے علاوہ، جاپان کی جانب سے جنوبی کوریا میں موجود اپنے شہریوں اور کاروباری اداروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے اقدامات ایک ذمے دارانہ رویے کی مثال ہیں۔ تاہم، یہ بات واضح ہے کہ جاپان اس صورتحال سے اپنی حکمت عملی کو نہایت احتیاط سے ترتیب دے رہا ہے تاکہ خطے میں توازن اور استحکام برقرار رکھا جا سکے۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ موجودہ صورتحال جنوبی کوریا کی داخلی سیاست کا ایک نازک لمحہ ہے، لیکن اس کے اثرات بین الاقوامی تعلقات کے لیے بھی اہم ہیں۔ جاپان اور جنوبی کوریا دونوں کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ باہمی تعلقات کی مضبوطی پر توجہ دیں تاکہ خطے میں امن اور تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔ ہر چند کہ جاپانی وزیراعظم شیگیرو اشیبا کے متوازن رویے نے دونوں ممالک کے پیچیدہ ماضی کے باوجود امید کا پیغام دیا، لیکن جنوبی کوریا میں قیادت کی تبدیلی سے دونوں ممالک کے درمیان موجود تاریخی تنازعات کی موجودگی کے باعث تعلقات کو ایک نئی راہ دینے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

یہاں قارئین کی دلچسپی کے لیے ہم دونوں ممالک کے تنازعات کی تفصیل کو ذیل میں بیان کررہے ہیں جس سے ان کے اختلافات کی نوعیت کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ 1910 میں جاپان نے کوریا کو اپنی کالونی میں شامل کر لیا تھا جس کے دوران امپیریل آرمی نے کورین ثقافت، زبان، اور شناخت کو دبا دیا اور کورین عوام کو جاپانی فوج اور صنعتوں میں جبری مشقت کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ دور کوریا کی تاریخ میں ایک تلخ یادگار کے طور پر درج ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات پر اب بھی اثرانداز ہوتا نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ یاسوکنی شرائن جو ان جاپانی فوجیوں کی یادگار ہے جو جاپان کوریا جنگ میں مارے گئے تھے، ان مرنے والوں میں کچھ کو کوریا جنگی مجرم تصور کرتا ہے چنانچہ جنوبی کوریا کے عوام کے نزدیک یہ یادگار جاپانی سامراجی مظالم کی نشانی ہے اور تواتر کے ساتھ جاپانی سیاست دانوں کی اس شرائن پر حاضری بھی دونوں ممالک کے درمیان سفارتی کشیدگی کا باعث بنتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان ایک اور وجہ نزع تاکی شیما جزائر ہیں جنہیں کورین عوام ڈوکڈو کا نام دیتے ہیں۔ ان جزائر پر دونوں ممالک کا دعویٰ ایک اہم علاقائی تنازع ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ جنوبی کوریا ان جزائر پر اپنے کنٹرول کو برقرار رکھے ہوئے ہے، جبکہ جاپان ان جزائر پر کورین قبضے کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔ یہ تنازع نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات بلکہ خطے کی جغرافیائی سیاست پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی طرح (Comfort Women) بھی ایک ایسا ہی حساس معاملہ ہے جس پر تاریخی تناظر میں دونوں ممالک کے درمیان شدید کشاکش پائی جاتی ہے۔

جنگ عظیم دوم کے دوران ہزاروں کورین خواتین کو جاپانی فوجیوں کی جنسی غلامی پر مجبور کیا گیا، جنہیں ’’کمفرٹ ویمن‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہر چند کہ جاپان نے اس معاملے پر معذرت کی اور معاوضے کی ادائیگی بھی کی ہے، لیکن جنوبی کوریا اس معذرت کو ناکافی سمجھتا ہے اور مزید معاوضے کا مطالبہ کرتا ہے۔ مزید برآں دونوں ممالک کے درمیان جبری مشقت کا موضوع پر بھی باعث تنازع ہے جس کے تحت جنگ کے دوران لاکھوں کورین باشندوں کو جاپانی صنعتوں اور کانوں میں جبری مشقت کے لیے بھرتی کیا گیا۔ یہ مسئلہ آج بھی متاثرین کے حقوق کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان ایک متنازع موضوع ہے۔ ایک اور مسئلہ جس پر اکثر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچا وہ سی آف جاپان مشرقی سمندر کا تنازع ہے۔ جنوبی کوریا ’’سی آف جاپان‘‘ کو ’’مشرقی سمندر‘‘ کے نام سے یاد کرتا ہے اور اس کا نام تبدیل کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر مہم چلا رہا ہے۔ جبکہ جاپان اس تبدیلی کی مخالفت کرتا ہے، اور یہ تنازع دونوں ممالک کے درمیان قومی فخر اور شناخت کا معاملہ بن چکا ہے۔

مندرجہ بالا تمام تنازعات دونوں ممالک کے عوام کے لیے جذباتی اہمیت رکھتے ہیں۔ جاپان اور جنوبی کوریا کے تعلقات ان تلخ یادوں سے متاثر ہیں، جو عوامی سطح پر اعتماد کی کمی اور سیاست دانوں کے لیے چیلنج پیدا کرتے ہیں۔ مجوزہ سمٹ ان تنازعات کو ختم کرنے یا ان پر بات چیت کا بہترین موقع فراہم کر سکتی ہے۔ اس کے ذریعے دونوں ممالک اعتماد سازی کے اقدامات، جیسے کہ مشترکہ یادگاریں، معافی اور ثقافتی تبادلوں کا آغاز کر سکتے ہیں۔ سمٹ علاقائی امن و استحکام کے لیے بھی اہم ہو سکتی ہے۔ سمٹ کے ذریعے جاپان اور جنوبی کوریا مشترکہ چیلنجز جیسے شمالی کوریا کی جانب سے پیدا شدہ مسائل، اقتصادی تعاون، اور قدرتی وسائل کی تقسیم پر اتفاق رائے پیدا کر سکتے ہیں۔ ان تاریخی تنازعات کو پس پشت ڈال کر جاپان اور جنوبی کوریا اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ مجوزہ سمٹ ان تعلقات کی تجدید کے لیے ایک نیا آغاز ہو سکتی ہے، جو نہ صرف ان کے مابین امن و تعاون کو فروغ دے گی بلکہ خطے میں استحکام کے لیے بھی معاون ثابت ہو گی۔