گزشتہ روز پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسدادِ کرپشن کا عالمی دن منایا گیا۔ اقوامِ متحدہ نے اکتوبر 2003ء میں یہ دن منانے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ رشوت اور بدعنوانی جیسے معاشرتی مسائل کی طرف عالمی توجہ مبذول کرائی جا سکے۔ اس دن کا مقصد دنیا کو اس برائی کے خلاف اقدامات کرنے کی ترغیب دینا اور کرپشن کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ اس سال اقوامِ متحدہ نے انسدادِ کرپشن کے عالمی دن کا موضوع ’’بدعنوانی کے خلاف نوجوانوں کے ساتھ متحد ہونا، کل کی سالمیت کی تشکیل‘‘ مقرر کیا ہے۔ یہ دن دنیا بھر میں کرپشن کے خلاف یکجہتی اور مشترکہ جدوجہد کا عزم ظاہر کرتا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے دنیا کی تمام حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بدعنوانی کے خلاف متحد ہو کر موثر اقدامات کریں۔ اس موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے ایک پیغام میں کرپشن کے خاتمے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کرپشن کے خاتمے میں حکومت کا ساتھ دیں اور ایک ایسے پاکستان کے لیے کام کریں جہاں قانون کی حکمرانی اور سب کے لیے مساوی احتساب یقینی بنایا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ بدعنوانی کسی بھی ملک کی معیشت اور سماجی ڈھانچے کے لیے ایک گھناؤنا چیلنج ہے، یہ قوموں کو ان کی صلاحیتوں سے محروم کر دیتی ہے اور عوام کو مساوی مواقع اور منصفانہ حکمرانی کے فوائد سے محروم رکھتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کرپشن کی وجہ سے ترقیاتی وسائل کا صحیح استعمال نہیں ہو پاتا جس سے عدم مساوات بڑھتی ہے اور عوامی خدمات کی فراہمی متاثر ہوتی ہے، اس کا نتیجہ حکومت اور شہریوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کی صورت میں نکلتا ہے۔ بلاشبہ ملک سے کرپشن کے خاتمے، قانون کی حکمرانی اور معیشت کی ترقی کے لیے وزیر ِ اعظم نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ اصابت ِ رائے پر مبنی ہیں تاہم ان سے یہ بات پوچھی جانی چاہیے کہ جناب آپ کے ارشادات بجا مگر سرکاری اداروں میں آکاس بیل کی طرح پھیلی کرپشن اور بدعنوانی کا کیا علاج ہے، اس کے خاتمے کے لیے ان کی حکومت کے پاس کیا لائحہ عمل ہے؟ یا شریف حکومت نے اب تک معیشت کو سنبھالا دینے کے کیا اقدامات کیے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن، بدعنوانی اور لوٹ گھسوٹ نے ملکی معیشت کو وینٹی ویٹر تک پہنچا دیا ہے، ملک پر مسلط رہنے والے فوجی اور سول حکمرانوں نے شیر مادر سمجھ کر جس طرح ملکی وسائل کو لوٹا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ وزیر اعظم کے بیان سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک پر مسلط رہنے والوں نے کرپشن کی تاریخ رقم کی ہے اور دونوں ہاتھوں سے ملکی وسائل کو لوٹا ہے مگر ان کی پارٹی کرپشن کے سمندر میں دیانتداری کا جزیرہ ہے۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا کہ مترادف اس حمام میں سبھی عریاں ہیں اور اس بہتی گنگا میں سبھی نے ہاتھ دھوئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں عوام غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کا عذاب جھیل رہے ہیں، غریبوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہورہے ہیں، والدین اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر تیار ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 2023 کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس کے مطابق، پاکستان 180 ممالک میں سے 133 ویں نمبر پر ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے، بڑھتی ہوئی کرپشن اور غربت ایک بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ترقیاتی بجٹ کا 15 فی صد پروکیورمنٹ میں کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے پانی، بجلی، آبپاشی، اور ٹرانسپورٹ جیسے بنیادی منصوبے تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ قومی احتساب بیورو (نیب) اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں تاکہ عوامی وسائل کی لوٹ مار کا خاتمہ کیا جا سکے، مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ اینٹی کرپشن بیورو اور قومی احتساب بیورو (نیب) کوکرپٹ اور بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس سے کرپشن کے خاتمے کی کوششیں بارآور ہونے کے بجائے کرپشن ثمر بار ہو رہی ہے، جس کے نتیجے میں صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں غربت کی مجموعی شرح 39.5 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ بلوچستان میں 70 فی صد، خیبر پختون خوا میں 48 فی صد، سندھ میں 45 فی صد، اور پنجاب میں غربت کی شرح 30 فی صد ہے جو منفی رجحان کی عکاسی کرتی ہے جبکہ معیشت کے باب میں تمام اعشاریے بھی اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ مملکت ِ خداداد کی اقتصادی صورتحال دگر گوں ہے۔ محض مرض کی نشاندہی سے دم توڑتی معیشت سنبھل نہیں سکتی، خواہشوں کے بیج تو فصل نہیں دیتے، عوام غربت، مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آچکے ہیں، اب وہ محض زبانی دعوؤں پر یقین نہیں رکھیں گے، مشورے، کرپشن کے خاتمے کے عزم کے ساتھ ساتھ ملک کی اقتصادی صورتحال کی بہتری کے لیے لائن آف ایکشن کی ضرورت ہے۔ یادش بخیر! حکومت ِ پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے انسداد کرپشن کنونشن کی توثیق کر رکھی ہے، اس لیے حکومت پر لازم ہے کہ ایسے آزاد اور خودمختار ادارے قائم کرے جو کرپشن کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائیں اور قوم کا اعتماد بحال کریں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان میں کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ صرف زبانی جمع خرچ سے نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ اداروں میں شفافیت اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے، حکومتی اخراجات کو کم کرتے ہوئے غیر ضروری سبسڈیز ختم کی جائیں، ٹیکس کی وصولی کے نظام کو بہتر بنایا جائے، برآمدی شعبوں کو مراعات دے کر عالمی منڈیوں میں مسابقت بڑھائی جائے، چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے لیے آسان قرضوں اور ٹیکنالوجی سپورٹ فراہم کی جائے، زرعی اور صنعتی پیداوار بڑھانے کے لیے تحقیق اور جدت لائی جائے، شمسی، ہوائی اور پن بجلی کے منصوبے شروع کیے جائیں، نجی شعبے کو توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع دیے جائیں، بڑے تعمیراتی منصوبے شروع کر کے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں، جدید مہارتوں کی تربیت کے لیے تکنیکی تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں، شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے سخت قوانین اور نگرانی کا نظام نافذ کیا جائے، کرپشن کے خاتمے کے لیے آزاد عدلیہ کا قیام ناگزیر ہے لہٰذا عدلیہ، الیکشن کمیشن اور دیگر ریاستی اداروں کو آزاد اور مضبوط کیا جائے، زرعی اصلاحات کے ذریعے جدید ٹیکنالوجی اور بہتر بیجوں کا استعمال کیا جائے، کسانوں کو آسان قرضوں کی فراہمی اور منڈی تک رسائی دی جائے، سافٹ ویئر اور آئی ٹی سروسز کی برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔ ان اقدامات کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو بحران سے نکال کر پائیدار ترقی کے راستے پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں، اور کہانیوں، طفل تسلیوں اور محض خالی خولی زبانی دعوؤں سے ہچکولے کھاتی معیشت کی نیا نہیں سنبھلنے والی، اب عملی ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات اٹھانے پڑیں گے، اور سیاسی وابستگیوں اور پارٹی و ذاتی مفادات سے بلند ہو کر بے رحمانہ فیصلے کرنے پڑیں گے۔ شریف حکومت کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ
یہ گھڑی محشر کی ہے، تْو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!
یہ وہ چیلنج ہے جس کا سامنا پوری قوم کو متحد ہو کر کرنا ہوگا۔