خوارج

296

آرمی چیف حافظ ِ قرآن ہیں، اپنے خطابات میں موقع کی مناسبت سے قرآنی آیات کے حوالے بھی دیتے ہیں اور ترجمہ بھی کرتے ہیں، تاریخ ِ اسلام سے بھی ان کو شغف ہے، اس لیے ملک میں جاری دہشت گردی کے لیے افواج کے شعبۂ تعلقاتِ عامّہ نے کچھ عرصے سے خوارج کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کی ہے۔ یقینا ان کا مقصد یہی ہوگا کہ پاکستانی عوام کو ذہنی طور پر اسلامی تاریخ سے جوڑکر یہ باور کرایا جائے کہ فتنۂ خروج امیر المومنین سیدنا علیؓ کے دور سے چلا آرہا ہے۔ خروج سے مراد شرعی، آئینی اور قانونی حکومت کے خلاف مسلّح بغاوت کرنا ہے، ایسا گروہ ’’خارجی‘‘ کہلاتا ہے اور اس کی جمع ’’خوارج‘‘ ہے۔ بعض ٹی وی چینلوں پر ڈی جی آئی ایس پی آر کے حوالے سے ’’خوارجیوں‘‘ کے ٹکر چل رہے ہوتے ہیں، یہ لفظ درست نہیں ہے، کیونکہ لفظ ِ ’’خوارج‘‘ خود جمع ہے، اردو قواعد کے مطابق اس کی مزید جمع الجمع بنانے کی ضرورت نہیں ہے، جیسے بعض لوگ لفظ ِ علماء (عالِم کی جمع) کو اردو قواعد کے مطابق جمع الجمع بناکر ’’علمائوں‘‘ بولتے ہیں۔ اسی طرح ائرپورٹ اور بعض حساس اداروں میں باہر نکلنے کے راستے کی نشاندہی کے لیے Exit اور اس کا اردو متبادل’’اِخراج‘‘ لکھا ہوتا ہے، اس کے بجائے صحیح لفظ ’’خروج‘‘ لکھنا چاہیے، کیونکہ خروج کے معنی ہیں: باہر نکلنا، جبکہ اِخراج کے معنی ہیں: ’’باہر نکالنا‘‘۔

خوارج تاریخ ِ اسلام کا پہلا گروہ ہے، جس نے اسلامی خلافت پرخروج کیا، مسلّح مزاحمت کی، یہ گروہ اُس وقت ظاہر ہوا جب جنگ ِ صفین میں سیدنا علی اور سیدنا معاویہ تحکیم پر راضی ہوئے اور فریقین نے اپنی طرف سے ایک ایک ثالث مقرر کیا تاکہ امت کے لیے ابتلا سے نَجات کا کوئی راستہ نکل آئے۔ حَکَم ثالث کو کہتے ہیں اور تحکیم کے معنی ہیں: فریقین کے درمیان ثالثی کرکے تنازع کو طے کرنا۔ خوارج نے قرآنِ کریم کی اس آیت کا سہارا لیا: ’’اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہ‘‘ یعنی ’’حکم تو صرف اللہ کا چلے گا‘‘ اور آپ دونوں نے بندوں کو ’’حَکَم‘‘ مان کرکفر کیا ہے۔ امیر المؤمنین سیدنا علیؓ نے خوارج پر حجت قائم کرنے کے لیے النساء: 35 کے حوالے سے بتایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے زوجین کے درمیان رفع ِ نزاع کے لیے دونوں طرف سے ایک ایک ثالث مقرر کرنے کا حکم فرمایا ہے تو امت کا معاملہ ایک خاندان کے مقابلے میں کروڑوں درجے زیادہ اہم ہے، پس اس کے لیے ثالثی کیوں جائز نہیں ہوگی۔ مگر وہ ہٹ دھرم تھے، اپنے موقف کو حرفِ آخر سمجھتے تھے۔ یہی شعار آج کے خوارج یا دہشت گردوں کا ہے، خوارج کے قرآنی استدلال کے بارے میں امیر المؤمنین نے فرمایا تھا: ’’اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہ‘‘ یقینا کلمۂ حق ہے، لیکن یہ اُس سے باطل معنی مراد لے رہے ہیں‘‘۔ آج کے خوارج اور دہشت گردوں کا طرزِ استدلال ایسا ہی ہے کہ وہ جمہوریت کو کفرِ محض اور مسلمانوں کی حکومت کو کفر کی ترجمان اور باطل سمجھ کر اس کے خلاف مسلّح مزاحمت کر رہے ہیں، اس کے نتیجے میں نقصان عالَمِ کفر کا نہیں، بلکہ صرف اور صرف اسلام اور مسلمانوں کا ہورہا ہے۔

نائن الیون کے بعد اہل ِ مغرب نے دہشت گردی کی اصطلاح تواتر کے ساتھ استعمال کی ہے، ذرائع ابلاغ کی طاقت سے اسے رائج کیا ہے، اب یہ لفظ لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہوچکا ہے۔ ہولوکاسٹ کے بارے میں یہود کا کہنا تھا: ’’اگرچہ ہولوکاسٹ کے موقع پر سارے یہودی قتل نہیں کیے گئے، لیکن جتنے بھی قتل کیے گئے تھے، وہ سب کے سب یہودی تھے‘‘۔ اسی طرح اہل ِ مغرب نے مسلمانوں کے بارے میں یہی تاثر اپنے عوام کے ذہنوں میں بٹھایا: ’’اگرچہ سارے مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں، لیکن جو بھی دہشت گرد ہیں وہ سب مسلمان ہیں‘‘، یعنی انہوں نے دہشت گردی اور اسلام کو ہم معنی بنا دیا حتیٰ کہ ٹرمپ 2016 کی انتخابی مہم اور بعد کو اپنے صدارتی دورانیے میں تسلسل کے ساتھ ’’اسلامک ٹیررازم‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے رہے۔ 2024 کی انتخابی مہم میں انہوں نے مصلحت کے تحت اس اصطلاح کو استعمال نہیں کیا، کیونکہ مسلمان صدر بائیڈن کی اسرائیل نواز پالیسی کے سبب اُن سے انتہائی متنفر تھے، ٹرمپ نے اس نفرت کا فائدہ اٹھایا۔ حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ اسرائیل کی حمایت میں ٹرمپ بائیڈن سے سو قدم آگے ہے۔ امریکا سمیت مغربی ممالک میں دہشت گردی کے ایسے متعدد واقعات ہوئے جن میں سفید فام ملوّث تھے، لیکن ان کے جرم کو رنگ ونسل اور مذہب سے نہیں جوڑا گیا، بلکہ افراد کا جرم قرار دیا گیا، مغرب کی یہی امتیازی ذہنیت مسئلے کی اصل جڑ ہے۔

ان سطور کا مقصد یہ ہے کہ دہشت گردی کا لفظ اتنا عام ہو چکا ہے کہ اس کے متبادل خوارج کی اصطلاح روز مرہ زبان کا حصہ نہیں بن پارہی۔ خوارج کی بابت سیدنا علیؓ سے پوچھا گیا: ’’کیا وہ مشرک ہیں،آپ نے فرمایا: شرک سے بھاگ کر تو وہ اسلام میں داخل ہوئے ہیں، پوچھا گیا: کیا وہ منافق ہیں، آپ نے فرمایا: منافق تو اللہ کا ذکر بہت کم کرتے ہیں، سوال ہوا: تو آخر وہ کیا ہیں، فرمایا: وہ ہمارے بھائی ہیں، انہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے، اس لیے ہم ان سے قِتال کر رہے ہیں۔ زید بن ثابت بیان کرتے ہیں: ’’جب خوارج نے نہروان کے مقام پر خروج کیا، تو سیدنا علیؓ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ناحق خون بہایا ہے، یہ مسلمانوں کے مال مویشی کو لوٹ کر لے گئے ہیں، یہ تمہارے قریب کے دشمن ہیں، اگر تم اپنے حقیقی دشمن کفار سے مقابلہ کرو تو اندیشہ ہے کہ یہ تم پر پیچھے سے وار کریں گے، رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’میری امت کا ایک گروہ تم پر خروج کرے گا، تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں، ان کے روزوں کے مقابلے میں اپنے روزوں اور ان کی قرأت کے مقابلے میں اپنی قرأت کو حقیر جانو گے، وہ گمان کریں گے کہ یہ قرآن انہی کے لیے ہے، حالانکہ یہ ان کے خلاف حجت ہوگا۔ مگر یہ قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، یہ اسلام سے اس تیزی سے نکلیں گے، جیسے انتہائی تیز رفتار تیر اپنے نشانے کو پار کر جاتا ہے اور اُس کے کسی بھی حصے پر خون کا دھبّا تک نہیں لگتا‘‘۔ (البدایہ والنہایہ)

اسی طرح کی روایات فقہ ِ جعفریہ میں بھی موجود ہیں: امام حسین بیان کرتے ہیں: ’’امیر المومنین سے اہل ِ نہروان (خوارج) کی بابت سوال ہوا: کیا یہ مشرک تھے، فرمایا: شرک سے تو بھاگ کر آئے، عرض کیا: کیا منافق تھے، فرمایا: منافق تو اللہ کا ذکر بہت کم کرتے ہیں، عرض کیا: آخر یہ لوگ کون ہیں، فرما یا: انہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی اور اللہ نے اِن پر ہمیں فتح عطا فرمائی‘‘۔ (الجعفریات) سیدنا امام جعفر صادق نے سیدنا علیؓ سے روایت کیا: ’’حَروریوں (خوارج) سے ہم نے جنگ اس لیے نہیں کی کہ ہم نے ان کی تکفیر کی تھی یا انہوں نے ہماری تکفیر کی تھی، بلکہ جنگ کا سبب یہ تھا کہ ہم حق پر اور وہ باطل پر تھے‘‘۔ (الحمیری) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کراؤ، پس اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے کے خلاف بغاوت کرے، تو بغاوت پر آمادہ گروہ سے جنگ کرو حتیٰ کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، پھر اگر وہ بغاوت سے رجوع کرلیں تو ان دونوں کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کراؤ اور (فیصلہ کرتے وقت) عدل کا دامن تھامے رکھو‘‘۔ (الحجرات: 9) الغرض ہر عہد کے باغی یا خارجی جب تک اسلامی حکومت کے آگے سرِتسلیم خم نہ کریں، واجب القتل ہیں اور اُن کی بغاوت کو کچلنا اسلامی ریاست کی ذمے داری ہے۔ اکیسویں صدی کے خوارج تحریکِ طالبانِ پاکستان، القاعدہ، داعش اور اس طرح کی شدت پسند تنظیمیں ہیں، انہوں نے امت کو جو تحفہ دیا ہے، اس کی حقیقت جاننا ہو تو آج کے شام، عراق، لیبیا، لبنان اور یمن کو دیکھ لیجیے اور اب پاکستان میں روزانہ کے حساب سے کشت وخون ہورہا ہے۔ قرآنِ کریم نے فساد فی الارض کو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ قرار دیا ہے اور المائدہ: 33 میں اس کی سزا سب سے سخت بیان کی گئی ہے۔