دوسری شادی پر خصوصی ڈسکائونٹ

356

آج صبح ناشتہ کرتے ہوئے ہوٹل کے مالک حسین صاحب جن کا تعلق حیدرآباد انڈیا سے ہے ملاقات ہوگئی، دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ یہ ہوٹل ان کے بڑے بیٹے جو ایم بی اے ہے اس نے بنایا ہے، اور ہماری گھر والی گزر چکی ہیں، ہم گھر میں فارغ ہی تھے تو بیٹے نے یہاں بلالیا کہ دیکھ بھال کرلیں، دل لگا رہے گا۔

میں نے انہیں دوسری شادی کا مشورہ دیا جس پر ان کے چہرے مسکراہٹ ابھری جو کہ یکدم معدوم ہوگئی، میں چونکہ ایکسپریس نیوز اور دنیا نیوز میں بلاگز کے ذریعے لوگوں کو ترغیب دے چکا ہوں، اس لیے مجھے اس موضوع پر سیر حاصل معلومات حاصل ہیں، میں نے شادی کرنے کے فوائد (جوکہ عام طور پر ہر بندے کو معلوم ہوتے ہیں) سماجی پہلو، اور نہ کرنے کی صورت میں نقصانات سے آگاہ کیا، جس پر انہوں نے دبے لفظوں میں بچوں کی طرف سے ناراضی کے خدشے کا اظہار کیا۔

اگر بچوں کو نئے بہن، بھائیوں کی آمد کا خدشہ ہے تو ان پر واضح کردیں کہ آپ خاندانی منصوبہ بندی پر سختی سے عمل کریں گے، اور اگر جائداد کے بٹوارے کا خدشہ ہے تو یہ ایک شرعی مسئلہ ہے کہ باپ کی جائداد پر جب تک باپ زندہے اولاد کا کوئی حق نہیں، مرنے کے بعد شریعت کے مطابق تقسیم ہوگی، اور آخری بات اللہ سے مدد مانگیں یہ کہتے ہوئے میں نے اجازت چاہی، بل ادا کرتے ہوئے میرے انکار کے باوجود وہ خصوصی رعایت دینے پر مصر تھے مگر میں نے انکار کردیا۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہندوستان، پاکستان میں آج بھی دوسری شادی کو اچھوت سمجھا جاتاہے حالانکہ دوسری شادی بالخصوص ان افراد کی جن کی شریک حیات دنیا سے گزر چکی ہیں اور اب وہ اکیلے ہی گزارہ کررہے ہیں وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، اور یہ عین دین ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان میں 40 لاکھ بیوائیں اور مجموعی طور پر 60 لاکھ لڑکیاں، خواتین شاد ی کی منتظر ہیں۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ طلاق یافتہ، بیوائوں کے نان نفقہ کا کوئی ریاستی انتظام بھی نہیں ہے۔ دوسری شادی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ اولاد کا یہ سمجھنا کہ باپ کی جائداد پر ان کا حق ہے، باپ کا مال و دولت ان کا ہے، ایک بہت بڑی غلط فہمی اور علمی مسئلہ ہے، جسے نہ اسکول، کالج میں پڑھایا جاتا ہے نہ کسی مدرسے کے منبر، ختم نبوت کے جلسے، محفل میلاد یا کسی اور مذہبی تقریب میں بیان کیا جاتا ہے۔

جس کی وجہ سے آج کی اولاد باپ کی خوشیوں اور عاقبت کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ باپ کے مال پر میرا حق ہے، کچھ نکمے بچے تو اپنے باپ کو زندگی میں ہی مجبور کرتے ہیں کہ انہیں ان کا حصہ دے دیا جائے۔ یہ غلط ہے، مفتیان کرام کا یہ ماننا ہے کہ باپ کے مال پر جب تک وہ زندہ ہے اولاد کا کوئی حق نہیں ہے، باپ کو اپنے مال پر پور تصرف حاصل ہے۔ باپ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی اولاد کو اس لیے باپ کے مال میں سے حصہ دیا جاتا ہے کہ اب مال کا حقیقی وارث دنیا سے جا چکا ہے تو اسے اولاد میں شریعت کے مطابق تقسیم کردیا جائے۔

مندرجہ بالا غلط خیال کی وجہ سے اولاد باپ کی دوسری شادی میں رکاوٹ بنتی ہے، کیونکہ نئی اماں آئے گی تو بچے بھی آئیں گے اور بچے آئیں گے تو پھر جائداد زیادہ افراد میں تقسیم ہوگی اس لیے وہ ابا جی کی دوسری شاد ی میں، دانستہ طور پر یا نادانستہ طور پر رکاوٹ بنتے ہیں اور وہ مال جو راحت کے لیے جمع کیا تھا تنہائی اور تاریکیاں لانے کا سبب بن جاتا ہے۔

میں اس پلیٹ فارم کے ذریعے علما کرام سے ملتمس ہوں کہ برائے کرم ان مسائل کو اپنے خطبات کا موضوع بنائیں، لوگوں میں آگاہی پیدا کریں، جمعہ کے خطبات، ختم نبوت کے جلسوں، عید میلادالنبی کے جلسوں، جلوسوں، الغرض ہر موقع پر ان مسائل کو اس قدر بیان کریں کہ معاشرے میں سو فی صد دین زندہ ہوجائے۔ اور یہ ایک بار بیان کرنے سے نہیں ہوگا، مسلسل بیان کرنے سے ہوگا، آپ کی ان کوششوں سے معاشرے میں سے چھپی ہوئی اور ظاہر ی بیماریاں ختم ہوجائیں گی، اور حشر کے روز آپ تاجدار مدینہ، راحت و قلب و سینہ وجہہ وجود کائنات سیدنا محمدؐ کے سامنے سرخرو ہوں گے۔ ان شااللہ