شام میں برسوں سے جاری جبر استبداد کا دور اپنے اختتام کو پہنچا، اور اب بشارالاسد کا 24 سالہ اقتدار ختم ہوچکا ہے۔ مزاحمت کار اور عوام کی کامیابی اور بشار الاسد حکومت کے خاتمے نے دنیا کو ایک نئے عہد کی نوید دی ہے۔ شام، جو گزشتہ دہائی سے خانہ جنگی اور آمریت کی چکی میں پس رہا تھا، اب ایک ایسی سمت کی جانب بڑھ رہا ہے جہاں آزادی، انصاف، اور خودمختاری کے خواب تعبیر پا سکتے ہیں۔ اس تاریخی تبدیلی کے اثرات نہ صرف خطے بلکہ عالمی سیاست پر بھی گہرے نقوش چھوڑیں گے۔ شام، ایک تاریخی اہمیت کا حامل ملک، مقبوضہ فلسطین کے پہلو میں واقع ہے اور اس کی سرزمین نے ہمیشہ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ شام کے ایک اہم علاقے گولان، پر صہیونی ریاست نے ناجائز قبضہ بھی جما رکھا ہے۔ موجودہ انقلاب اور بشار الاسد حکومت کا خاتمہ کسی بیرونی سازش کا نتیجہ نہیں بلکہ عوامی غم و غصے کے وہ جذبات ہیں جو دہائیوں سے دبائے جا رہے تھے، دمشق کی سڑکوں پر عوام کا جشن منانا، فوجی ٹینکوں پر چڑھ کر خوشی کا اظہار کرنا اور جیلوں سے سیاسی قیدیوں کی رہائی اس جدوجہد کی واضح مثالیں ہیں۔ تحریر الشام ملیشیا کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے اپنے بیان میں کہا کہ پْرامن انتقال اقتدار تک سابق وزیراعظم محمد غازی الجلالی تمام ریاستی اداروں کو چلائیں گے ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی صورت شام میں موجود کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کریں گے۔ شام کے وزیراعظم محمد غازی الجلالی نے اپنے بیان میں کہا ہے میں اپنے گھر میں ہی موجود ہوں اور عوام کی منتخب کردہ کسی بھی قیادت سے تعاون کے لیے تیار ہوں۔ سرکاری ٹی وی اور ریڈیو پر نشر ہونے والے پیغامات میں تمام شہریوں کو املاک کے تحفظ اور اتحاد پر زور دیا گیا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مزاحمت کاروں کے نزدیک یہ انقلاب انتقامی جذبے کے تحت نہیں بلکہ عوام کو ظلم سے نجات دلانے اور ان کے روشن مستقبل کے لیے برپا ہوا ہے۔ بشار الاسد کی حکومت، جو چار دہائیوں تک اقتدار پر قابض رہی، جس نے شامی عوام کو نہ صرف ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا بلکہ ایسا باب رقم کیا جس نے جبر و ظلم کی تمام حدیں پار کر دیں۔ یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ 1982ء میں حافظ الاسد کی ظالمانہ حکمرانی کے دوران ہزاروں اخوانی خاندانوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا، جس کے بعد شامی عوام کے لیے اگر کوئی حقیقی امید اور متبادل موجود تھا، تو وہ صرف الاخوان المسلمون کی تحریک ہی تھی۔ یہ جماعت عوام کے دلوں میں انصاف، آزادی اور اسلامی اقدار کی علامت کے طور پر زندہ رہی، اور اس ظلم کے باوجود ان کی جدوجہد کا چراغ کبھی بجھ نہ سکا۔ موجودہ تبدیلیوں اور حیرت انگیز نتائج پر کئی لوگ سوالات اٹھاتے ہیں، جواب کچھ بھی ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہی لوگوں نے اس پورے نظام کو بدلنے میں کلیدی اور فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ بشار الاسد کی افواج نے نہتے عوام پر قیامت ڈھا ہوئی تھی، شام کی گلیاں اور محلے خون میں نہا چکے تھے۔ معصوم بچے، بیگناہ خواتین، اور بوڑھے مرد ہر روز ظلم کی چکی میں پستے رہے۔ کیمیائی ہتھیاروں اور گیس بموں کی بارش نے ان کی آنے والی نسل کو بھی متاثر کیا ہے اور وہ جو زندہ ہیں، اپنی زندگی کو ایک مستقل عذاب کے طور پر جی رہے ہیں۔ بشار کے قید خانوں میں ہزاروں قیدی اذیت ناک حالات میں سڑ رہے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے یا اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے کی ہمت کرتے تھے۔ انہیں تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں قید کردیا دیا گیا، جہاں اذیتیں ان کی روز مرہ زندگی کا حصہ بن چکی تھیں اب اس انقلاب کے بات ان کو جنگل میں مار کر پھینک دینے کے بجائے آزادی ملنے کی خبر ہے ، اور اطلاعات ہیں کہ قیدیوں کو رہا کردیا گیا ہے۔ حافظ الاسد کے دور سے شروع ہونے والی آمریت نے بعث پارٹی کے نظریات کو عوام پر مسلط کیا اور معاشرتی ناہمواریوں کو فروغ دیا۔ 1970 میں حافظ الاسد نے اقتدار سنبھال کر علوی اقلیت کو اہم حکومتی اور فوجی عہدے دیے اور سنی اکثریت کو ہر ہر فوجی و انتظامی عہدوں سے باہر کردیا تھا۔ بشار الاسد نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طاقت اور جبر کے نظام کو جاری رکھا۔ رفرنڈم میں انتخابی نتائج میں 100 فی صد کامیابی کے جھوٹے دعوے اور سیاسی مخالفین کا صفایا ہی ان کی حکومت کا خاصا رہا۔ شام میں 2011 سے شروع ہونے والی خانہ جنگی نے بشار الاسد حکومت کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں۔ یہ جدوجہد کوئی فوری ردعمل نہیں تھی بلکہ عوامی محرومیوں اور جبر کے خلاف ایک طویل جدوجہد کا نتیجہ تھی۔ یہ جنگ کبھی کم شدت سے اور کبھی زیادہ شدت سے جاری رہی، لیکن عوام کے جذبے کو دبایا نہیں جا سکا۔ شام میں مزاحمت کاروں کی کارروائیاں اور ہزاروں قیدیوں کی رہائی وہاں کی عوام کی جرأت اور پر عزم ہونے کا مظہر ہے۔ شامی بحران کے دوران عالمی طاقتوں کا کردار انتہائی مایوس کن رہا۔ اقوام متحدہ، جو انسانی حقوق اور امن کے تحفظ کا دعویٰ کرتی ہے، شام میں اپنے بنیادی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ سلامتی کونسل میں روس اور چین کے ویٹو نے کسی بھی قسم کی مداخلت کو ناممکن بنا دیا تھا جبکہ امریکی پالیسی شام کے حوالے سے غیر واضح رہی۔ روس نے شام میں اپنی عسکری طاقت کا بے دریغ استعمال کیا اور نہتے عوام پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ اسپتالوں، اسکولوں، اور مہاجرین کے کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا، جس سے روس کا کردار قابض طاقت کے طور پر واضح ہو گیا تھا۔ ایران اور روس نے بشار الاسد حکومت کی حمایت کی، جس سے شامی عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔ عرب ممالک نے شام کے بحران کے حوالے سے مختلف پالیسیوں کو اپنایا۔ قطر، سعودی عرب، اردن، اور ترکی نے شامی عوام کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کیا، لیکن عملی طور پر یہ تعاون محدود رہا۔ شامی عوام نے ثابت کر دیا ہے کہ ظلم و جبر کا نظام ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتا۔ ان کا اتحاد اور قربانی آزادی کے حصول کی ایک ناقابل تسخیر طاقت ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا اس عوامی انقلاب کو تسلیم کرے اور شامی عوام کے ساتھ تعاون کرے تاکہ ایک آزاد اور مستحکم شام کی بنیاد رکھی جا سکے۔ خطے کے دیگر ممالک کو شام کے اس انقلاب سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ عوامی جدوجہد اور انقلاب کا جذبہ کسی مخصوص قوم تک محدود نہیں ہوتا۔ اگر خطے کے ممالک نے اس انقلاب کو اپنے لیے خطرہ سمجھنے کے بجائے شامی عوام کے ساتھ تعاون کیا تو یہ ان کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا۔ شام کے انقلاب نے دنیا کو پھر بتایا ہے کہ عوام کی طاقت اور جدوجہد کے آگے کوئی جبر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ عالمی برادری کو شامی عوام کے ساتھ کھڑے ہو کر آزادی اور انصاف کے اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ اگر دنیا نے اس انقلاب کو نظر انداز کیا یا دبانے کی کوشش کی تو یہ تبدیلی دیگر ممالک میں بھی اپنی راہ بنا سکتی ہے۔ یہ انقلاب محض شام کا نہیں بلکہ پوری دنیا کے مظلوموں کے لیے امید کا ایک نیا چراغ ہے۔ یہ وقت ہے کہ دنیا اس کو تسلیم کرے اور اس سے وہ خیر نکالے جو اس کے مقصد کا حقیقی جوہر ہے۔