اگر سپریم کورٹ رشید اے رضوی مرحوم کی جگہ نیا ثالث مقرر کرتی اور جسٹس شوکت صدیقی جیسے تجربہ کار اور مخلص وکیل کو ثالث مقرر کیا جاتا ہے تو ملازمین کے لیے یہ ایک اچھی خبر ہو سکتی ہے۔ ہمارے سیاستدان پارلیمنٹ کو سپریم ادارہ قرار دیتے ہیں مگر پارلیمنٹ کا عوامی مسائل اور بالخصوص محنت کش طبقہ کے حقوق کے معاملے میں کوئی خاص کردار نظر نہیں آتا۔ پیپلز پارٹی، نواز لیگ ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور دیگر جماعتیں پارلیمنٹ میں اپنے سیاسی مفادات کے لیے ججز اور جرنیلوں کو ایکسٹینشن دینے کے لیے تو تیز ترین قانون سازی آئینی ترامیم منظور کروا لیتی ہیں لیکن عوامی مفادات اور مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کی جاتی۔
اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے قائم کی گئی خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے پاکستان اسٹیل کے برطرف ملازمین کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا،لیکن ان سفارشات پر آج تک عملدرآمد نہیں ہو سکا، یہ حقیقت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود ارکان کو عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، بلکہ ان کی تمام توجہ صرف اپنے سیاسی مفادات پر مرکوز ہے۔ پیپلز پارٹی مزدور دوست جماعت ہونے کا دعویٰ جبکہ عمل اس کے برعکس کرتی ہے، پاکستان اسٹیل کے معاملے پر ان کی وعدہ خلافیاں کھل کر سامنے آئی ہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ملازمین سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر پاکستان اسٹیل اور برطرف ملازمین کو بحال کریں گے آج پیپلز پارٹی وفاقی حکومت میں اہم شراکت دار ہے، صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے، لیکن پاکستان اسٹیل ملازمین آج بھی بلاول زرداری کے وعدوں کے تکمیل کے منتظر ہیں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان کے وعدے بھی جھوٹ پر مبنی اور محض سیاسی بیان بازی تھیں۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے ملازمین کی جانب سے ریلوے ٹریک پر دیے گئے دھرنے سمیت متعدد مظاہرے ان وعدوں کے ساتھ ختم کروائے تھے کہ سندھ حکومت پاکستان اسٹیل اور ملازمین کی بحالی کا معاملہ وفاق کے سامنے رکھے گی،
سپریم کورٹ اور لیبر کورٹ میں جاری کیسز میں فریق بنے گی، لیکن ان وعدوں پر آج تک عمل نہیں ہوسکا۔ دوسری طرف موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز میں اس وقت انتظامی بحران ہے کوئی مستقل چیف ایگزیکٹو آفیسر تعینات نہیں تمام عہدوں پر ایڈہاک بنیادوں پر تعیناتیاں کی جاتی ہیں، اس کے نتیجے میں پاکستان اسٹیل ملز کے حاضر سروس ملازمین بھی کئی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، ان کے سروں پر بھی لیبر کورٹ کی صورت میں ہر وقت برطرفی کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔تنخواہوں میں گزشتہ 12سالوں سے کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، میڈیکل، کینٹین، ٹرانسپورٹ سہولیات اور دیگر بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ گلشن حدید فیز 4 کی الاٹمنٹ میں غیر ضروری تاخیر کی جارہی ہے۔ ٹاؤن شپ میں گیس کی بندش اور دیگر مسائل نے ان کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔ دوسری جانب ریٹائرڈ ملازمین جنہوں اپنی ساری زندگی اس ادارے کو دی عرصہ دراز سے اپنے جائز قانونی واجبات سے محروم ہیں لیکن انتظامیہ اور بورڈ آف ڈائریکٹرز ان مسائل کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ محنت کشوں کے غضب شدہ حقوق، اسٹیل ملز اور برطرف ملازمین کی بحالی کے لیے تمام محنت کش اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور ایک منظم پرامن جدوجہد کے ذریعے اپنے حق کے لیے کھڑے ہوں، یہ آپ کی زندگی اور آپ کے بچوں کے مستقبل کی بقاء کا سوال ہے۔ یاد رکھیں، حقوق کبھی خود بخود نہیں ملتے بلکہ جدو جہد، قربانی اور اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
(ختم شد)