بنگلا دیش پر بھارتی الزامات اور حقائق

311

قاضی جاوید
پاکستان تو 1967ء میں آگر تلہ سازش کیس سے ڈسا جا چکا تھا۔رائٹر اور انڈیا ٹو ڈے یہ بتا رہا ہے کہ اب اسی آگر تلہ میں بنگلا دیش بھی بھارت کے ہاتھوں نفرت کا شکار نظر آ رہا ہے۔ ریاست تریپورہ صدر مقام آگر تلہ میں بنگلا دیش کے ہائی کمشنر کے دفتر میں بی جے پی کے غنڈوں نے سرکاری سرپرستی میں حملے کیا اور عمارت کو نقصان پہنچایا۔ اس کے ساتھ ہی بنگلا دیش کے پرچم کو بھی نظر ِ آتش کر دیا گیا۔ ریاست تریپورہ آگر تلہ میں بنگلا دیش کے ہائی کمیشن پر حملے کی بھارت کی جانب سے یہ جواز پیش کیا گیا کہ: بنگلا دیش میں ہندو عقیدے کی بنیاد پر تشدد کا شکار ہو رہے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں بنگلا دیش میں سیاسی وابستگی کی وجہ سے عوامی لیگی نے ہندوئوں اور مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شیخ حسینہ کے بنگلا دیش سے بھارت فرار کے وقت ایک ہزار سے زائد ہندو خاندانوں نے بنگلا دیش سے فرار ہو کر مغربی بنگلال جانے کی کوشش کی تھی لیکن وہاں کی حکومت نے ان ہندوئوں کو بھارت میں داخل ہونے سے روک دیا اور اب یہ ہندو بھارتی سرحد پر ہی بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بتاتا چلوں کہ بھارت نے 2020ء کو ایک آئینی ترمیم کے تحت ساری دنیا کے ہندوئوں کو بھارتی شہریت کی پیشکش کر رکھی ہے لیکن نہ جانے کیوں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ان ہندوئوں کو مغربی بنگال میں داخلے سے روک رہی ہیں۔ اُدھر دوسری جانب یہی ممتا بنرجی اقوام متحدہ سے اپیل کر رہی ہیں کہ بنگلا دیش میں ہندوئوں پر مظالم بند کرایا جائے۔

ڈھاکا میں ہندوئوں کے خلاف فرقہ وارانہ تشدد کی مذمت میں بنگلا دیشی ہندوئو نے 12 اگست 2024 کو ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی تھی۔ ہندوئوں کو حسینہ کی جماعت عوامی لیگ سے وابستگی کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا تھا جن سے بڑے پیمانے پر نفرت پائی جاتی تھی۔ لگ بھگ دو درجن ہندو مذہبی تنظیموں نے بھی مذہبی محرک کے فقدان کو تسلیم کیا ہے۔ حسینہ کے خلاف مظاہروں کے دوران ہجوموں نے ہندوؤں کی 278 املاک کی توڑ پھوڑ کی لیکن عوامی لیگ کے حامی مسلمان گھرانوں پر اس سے پانچ سے سات گنا زیادہ حملے کیے گئے تھے جنہوں نے مظاہروں کے دوران طلبہ و طالبات کو قتل کیا اور ان کے گھروں کو آگ لگائی اور حسینہ حکومت کی ان سرپرستی حاصل کی بنگلا دیش نیشنل ہندو گرینڈ الائنس کے مطابق تقریباً تمام حملوں کی وجہ سیاسی تھی، بھارتی میڈیا نے انہیں غلط طور سے فرقہ وارانہ ہندو مخالف حملے قرار دیا۔ بنگلا دیشی اخبارات کے مطابق سیکرٹری جنرل الائنس، پرمانک کا کہنا ہے کہ ہمارے مسلمان بھائی ملک بھر میں بہت سے ہندو مندروں کے سامنے پہرے دیتے ر ہے۔ بنگلا دیش میں حقائق کی جانچ کرنے والے محققین شیخ حسینہ کی برطرفی کے بعد ہجوموں کے تشدد کی رپورٹنگ کرنے والے سوشل اور مین اسٹریم میڈیا کی متعدد ایسی رپورٹس کو غلط قرار دے رہے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ملک کی ہندو اقلیت کو ان کے عقیدے کی وجہ سے ہدف بنایا گیا تھا۔

حالات کو خراب کرنے والی خبریں جرمنی اور برطانیہ کے دور دراز آؤٹ لیٹس میں شائع ہوئی تھیں، جہاں سے سات اگست کو گارڈین نے خبر دی تھی کہ بھارت کے سوشل میڈیا پر ہجوموں کے ہاتھوں ہندوؤں کے مارے جانے، مندروں کو جلائے جانے اور کاروباروں کی لوٹ مار کی تصاویر کی بھر مار ہو گئی ہے، اگرچہ حملوں کے مکمل پیمانے کا ابھی پتا نہیں چلا ہے۔ امریکا میں بنگلا دیشی امریکی ہندوؤں نے ڈیٹرائٹ میں ایسے بینرز کے ساتھ مارچ کی جن پر لکھا تھا کہ ’’ہندوؤں کو مارنا بند کرو’’ اور بھارتی نژاد امریکی قانون ساز روکھنہ نے اس ماہ فیس بک اور یوٹیوب پر مطالبہ کیا کہ امریکی حکومت بنگلا دیش میں ہندوؤں کے تحفظ کے اقدام کرے۔ سوال یہ ہے دنیا بھر میں مسلمانوں پر 30 برسوں سے کارپیٹنگ بمباری ہو رہی ہے اس پر دنیا خاموش کیوں ہے۔

یہ الارم اور شور شرابا ہندو اکثریت کے حامل ملک بھارت میں سب سے زیادہ شدت سے سنائی دیا، جہاں دائیں بازو کے ہندو گروپوں نے اتر پردیش، مہاراشٹر اور دوسری ریاستوں میں ان حملوں پر احتجاج کے لیے ریلیاں نکالیں، جو بقول ان کے ’’ہندوؤں پر اسلام پسندوں کے فرقہ وارانہ حملے تھے‘‘۔ لیکن یہ وہ علاقے ہیں جہاں مسلمانوں پر روزآنہ کی بنیاد پر حملے ہو رہے ہیں۔

اس سلسلے میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ خود بنگلا دیش میں، ہندو، بودھوں اور مسیحیوں کے اتحاد کی انٹر نیشنل بین العقائد کونسل ’انٹر فیتھ ہندو بودھسٹ کرسچن یونٹی کونسل‘ نے بھی حسینہ کے بھارت فرار کے بعد خطرے کے احساس کو تسلیم کیا لیکن اب ایسا کچھ نہیں ہے۔ کونسل نے 9 اگست 2024ء کو ایک کھلے خط میں کہا، ’’ملک بھر کی اقلیتیں سخت تشویش، پریشانی اور غیر یقینی کیفیت میں ہیں‘‘۔ لیکن بعد کے حالات نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ بات تو واضح ہے کہ ہجوموں کے تشدد میں لوگ ہلاک ہوئے اور عمارتیں جلائی گئیں، لیکن حقائق کی جانچ کرنے والے بنگلا دیشی تفتیش کاروں کے تفصیلی تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر متاثرین کو ان کے عقیدے کی وجہ سے نہیں بلکہ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ سے وابستگی کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا تھا جس سے بڑے پیمانے پر نفرت پائی جاتی تھی۔

بنگلا دیش میں مقیم فرانسیسی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ لگ بھگ دو درجن ہندو مذہبی تنظیموں پر مشتمل، بنگلا دیش نیشنل ہندو گرینڈ الائنس نے بھی مذہبی محرک نہ ہونے کو تسلیم کیا ہے۔ ایک بھارتی آؤٹ لیٹ ’ریپبلک ٹی وی‘ نے چٹاگانگ میں ایک مندر کی ویڈیو براڈ کاسٹ کی، جس کے بارے میں اس نے کہا کہ اسے ’’بنگلا دیش میں اسلام پسندوں‘‘ نے نذر آتش کر دیا تھا۔ لیکن ’ڈسمس لیب‘ میں حقائق کی جانچ کرنے والے محققین نے اس رپورٹ کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا۔ ہندوئوں نے ہمیں بتایا کہ مندر پر قطعی طور پر کوئی حملہ نہیں ہوا تھا۔ ایک ہجوم نے اس سے ملحق عوامی لیگ کے دفتر کے فرنیچر کو آگ لگا دی تھی اور وہ نہیں جانتے کہ مندر پر ’آتشزدگی‘ کی افواہ کیسے پھیلی‘‘۔ حقائق کی جانچ کرنے والے ریسرچر، شیشیر نے وائس آف امریکا کو بتایا ’’حقائق کی جانچ پڑتال پر، ہمیں معلوم ہوا کہ لٹن داس کے گھر کو آگ نہیں لگائی گئی تھی۔ پولیس نے تصدیق کی کہ ویڈیو میں جلنے والا گھر عوامی لیگ کے ایک رکن پارلیمنٹ، بنگلا دیش کے سابق مسلمان کرکٹر مشرفی مرتضیٰ کا تھا‘‘۔

آخر بھارتی حکومت کو بنگلا دیش سے حسینہ کی فرار کے پریشانی کیوں بڑھ رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے شمال مشرقی علاقوں میںجہاں سیون سسٹرز (سات بہنیں) کہلانے والی ان سات ریاستوں جن میں آسام، تریپورہ، ہماچل پردیش، میزورام، منی پور، میگھالیہ اور ناگالینڈ عالمی طور پر بھی باغی تحریکوں کا مرکز سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے بھارت کی دیگر ریاستوں جن میں بہار، جھاڑ کھنڈ، چھتیس گڑھ، مغربی بنگال، اڑیسہ، مدھیا پردیش، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش میں بھی علٰیحدگی پسند گروپ سرگرم عمل ہیں۔ لیکن ناگالینڈ کے ناگا باغیوں اور نکسل باڑیوں کی تحریک اب بھارتی وجود کے لیے حقیقی خطرے کا روپ دھار چکی ہیں۔ ان علاقوں میں آسانی سے فوجی آپریشن کے ضروری ہے کہ بنگلا دیش بھارت کا غلام بن کر سن کچھ کرنے کو تیار ہو جائے لیکن حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کے بعد بھار ت کے لیے یہ سب کرنا ناممکن ہے۔