آزاد کشمیر میں متنازع صدارتی آرڈیننس کے خلاف ہڑتال جاری، معمولات زندگی درہم برہم

273
In Azad Kashmir, the strike

میر پور: جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر آزاد کشمیر بھر میں ہفتہ کو شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کا تیسرا روز رہا، جس کے باعث معمولات زندگی درہم برہم ہیں۔ باغ راولا کوٹ سمیت دیگر شہروں سے صدارتی آرڈیننس کے خلاف نکالے جانے والا لانگ مارچ دھیر کوٹ پہنچ گیا، جہاں ہزاروں افراد پر مشتمل قافلہ کوہالہ انٹری پوائنٹ پر پہنچ کر دھرنا دے گا۔

کشمیر کی حکومت نے یکم نومبر 2024 کو صدارتی ریفرنس ”پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر“ کے نفاذ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، وکلا، سول سوسائٹی اور مختلف سیاسی جماعتوں نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے اسے بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا تھا۔

جموں و کشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے عوامی احتجاج روکنے کے لیے جاری متنازع صدارتی آرڈیننس کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے، عوام بڑی تعداد میں انٹری پوائنٹس کی جانب مارچ کررہے ہیں۔

ایکشن کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ اگر متنازع صدارتی آرڈیننس واپس نہ لیا گیا تو ریاست بھر سے عوام مظفرآباد کی جانب لانگ مارچ کریں گے۔

مظفرآباد ڈویژن کے اضلاع نیلم اور جہلم ویلی سے قافلے مظفرآباد پہنچ گئے ہیں، قیادت جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ممبر شوکت نواز میر کر رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی آزاد کشمیر نے بھی صدارتی آرڈیننس منسوخ کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔

ذرائع کے مطابق کراچی میں پی پی آزاد کشمیر کی پارلیمانی پارٹی کا فریال تالپور کی صدارت میں اجلاس ہوا۔

اجلاس میں پیپلز پارٹی نی جانب سے کہا گیا کہ صدارتی آرڈیننس آزاد کشمیر کے عوام کی امنگوں کے منافی ہے، حکومت آزاد کشمیر متنازع صدارتی آرڈیننس سے دستبراری اختیار کرے۔

دوسری جانب حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی مذاکراتی کمیٹی کے ایکشن کمیٹی رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات بھی ہوئے ہیں تاہم ابھی تک ڈیڈ لاک برقرار ہے۔

ایکشن کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ متنازعہ صدارتی آرڈیننس کی واپسی کے ساتھ اس قانون کے تحت گرفتار کیے گئے افراد کو فوری طور رہا کیا جائے۔

دوسری جانب مظفر آباد میں مذاکرات کے دور کے بعد حکومتی وزرا نے کہاکہ مذاکرات کا عمل جاری ہے، جلد کوئی نتیجہ نکلے گا۔

علاوہ ازیں شٹر ڈاون اور پہیہ جام ہڑتال تیسرے روز بھی جاری رہی، باغ شہر اور مضافات میں اشیائے خوردونوش کی قلت پیدا ہوگئی ، شہری مشکلات کاشکار ہیں، مختلف مقامات پر پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات ہے۔

یاد رہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کسی بھی احتجاج اور جلسے سے ایک ہفتے قبل ڈپٹی کمشنر سے اجازت لینا ضروری قرار دیا گیا تھا، اس کے علاوہ کسی غیر رجسٹرڈ جماعت یا تنظیم کے احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

اس آرڈیننس کو مرکزی بار ایسوسی ایشن مظفر آباد اور آزاد کشمیر بار کونسل کے 3 ارکان نے آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

ہائی کورٹ نے ان درخواستوں کو مسترد کردیا تھا جس کے بعد درخواست گزاروں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ آف آزاد کشمیر میں درخواست دائر کردی تھی۔

تاہم سپریم کورٹ آف آزاد جموں و کشمیر نے پرامن احتجاج اور امن عامہ سے متعلق آرڈیننس 2024 کا نفاذ معطل کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف 2 اپیلیں منظور کرلی تھیں، تاہم عوامی ایکشن کمیٹی نے آرڈیننس کی منسوخی تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔