ایک بڑا سوالیہ نشان

304

اے ابن آدم ملک کے ممتاز قلم کار محمد محسن صاحب کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ آپ کو انگلش اور اُردو پر بڑا دسترس ہے، آپ خود ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں مگر آپ نے اپنی کتاب آٹھواں آسمان میں ایک مضمون تحریر کیا ہے، جس کا عنوان ہے ایک بڑا سوالیہ نشان۔ یہ کتاب 605 صفحات پر مبنی ہے مگر اس مضمون کو پڑھنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ کتاب کا نام محمد محسن صاحب نے کیوں رکھا۔ غور طلب کام ہے۔ محمد محسن صاحب لکھتے ہیں ہمارے ملک میں عام آدمی کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے اور وہ جو آہ و بکا کرتا ہے، اُس کی شنوائی کہیں نہیں ہوتی، ایسے میں وہ کیا کرے، کس کے پاس جائے، کون اس کی مشکل حل کرے گا؟ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پیدائش کے مرحلے، اسپتال یا زچہ خانہ سے لے کر بچے کی تعلیم، اس کی تربیت، کالج تک اب اگر بچہ قسمت کا دھنی ہے اور تمام مراحل سے گزر گیا تو نوکری کا مسئلہ، ہر قدم پر سفارش، رشوت کے بغیر کام ناممکن اگر رشوت کے پیسے ہیں تو پھر تلاش اُس بندے کی جو رشوت لے کر کام کرادے۔ اسپتالوں میں غریبوں کی لمبی لمبی قطاریں، بندہ جائے تو کہاں جائے۔ زمین، جائداد، لین دین کا تنازع، تھانہ پولیس، عدالت کا لامتناہی سلسلہ، کہاں سے داد رسی ہوگی۔ کاروبار میں ادھار دے دو تو واپس نہیں ہوتا۔ کسی کو قرض دے دو پھر ساری عمر خون کے آنسو روتے رہو، آپ کا کسی شخص سے کام پڑ جائے تو اس سے ملاقات کیسے کی جائے، موبائل اور سی ایل آئی کی سہولت نے ان بڑے آدمیوں کی زندگی اور آسان کردی ہے۔ جب انہیں کسی سے نہیں ملنا وہ ان کے دولت خانے پر آکر بھی نہیں مل سکتا کیوں کہ چوکیدار یا سیکورٹی کا آدمی صاحب کے گھر میں جانے کی اجازت نہیں دے گا۔ اگر ان کے دفتر چلے جائیں تو پہلے تو آفس کے اندر داخل ہی نہیں ہوسکتے، اگر آفس میں داخل ہوگئے تو صاحب کے کمرے میں کیسے جائیں؟ سرکاری دفاتر میں اگر کوئی کام ہے تو پہلے گیٹ پر اپنا اصل شناختی کارڈ رکھوائیں پھر جس سے کام ہے اس کے گیٹ پر سیکورٹی کا انچارج بات کرکے آپ کو اندر جانے کی اجازت دے گا، صاحب نے منع کردیا تو آپ مین گیٹ کے اندر بھی نہیں جاسکتے اور اگر کسی طرح کچھ لے دے کر آفس میں پہنچ گئے تو پہلے چپراسی پھر پی اے اور پھر سیکرٹری آپ کو اندر جانے کی اجازت تو درکنار صاحب کو بتائے گا کون آیا ہے اور کیام کام ہے؟ اگر آپ نے کسی طرح لینڈ لائن یا موبائل فون سے نمبر لے لیا تو صاحب یا اس کا پی اے نامعلوم نمبر اٹھائے گا ہی نہیں اور اب تو یہ ہورہا ہے کہ صاحب تک کوئی درخواست نہیں جاسکتی، ماتحت صاحب تک پہنچے ہی نہیں دیتے جو صاحب عالم کے مزاج پر گراں گزرے۔

یہ آج کے زمینی خدا، شداد، فرعون اور نمرود سے بھی بدتر ہیں کیوں کہ نمرود اور فرعون کے دربار میں لوگ جا تو سکتے تھے لیکن ہمارے ملک کے بڑے دولت مند اور بااختیار آدمی سے آپ نہیں مل سکتے۔ ان زمینی خدائوں میں ہر وہ آدمی شامل ہے جس کے پاس دولت، رتبہ اور شان و شوکت ہے۔ ان میں بڑے، چھوٹے، سول، سرکاری اور فوجی افسران، صنعت کار، تاجر، وزیر، سفیر، بڑا ڈاکو، بڑا وکیل، بڑا صحافی و ٹی وی اینکر وغیرہ۔ غرض وہ پاکستانی شامل ہے جس کے پاس کچھ طاقت اور رتبہ ہے۔ ان کے پاس آپ نہیں پہنچ سکتے۔ ہر عام آدمی کی پہنچ صرف اللہ تک ہوتی ہے۔ وہ گڑگڑا کر اس سے مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ جو ساتویں آسمان پر ہوتا ہے اور ان کی دعائیں قبول کرتا ہے جبکہ یہ زمینی خدا آٹھویں آسمان پر رہتے ہیں جو نعوذباللہ اپنے آپ کو خدائے برتر کے مقام سے بھی اوپر سمجھتے ہیں۔ ساتویں آسمان تک تو آپ اپنی فریاد پہنچا سکتے ہیں لیکن آٹھویں آسمان پر پہنچنا ممکن نہیں۔

کچھ عرصے پہلے میرا ٹرانسفر کراچی سے اندرون سندھ کردیا گیا۔ میں جو ایک اچھے سرکاری عہدے سے ریٹائر ہوچکا تھا اور اب ہائی کورٹ کے ایک وکیل کی حیثیت رکھتا ہوں اپنے تمام اگلے پچھلے تعلقات استعمال کرکے ان زمینی خدائوں تک پہنچنے کی ناکام کوشش کے بعد ڈیڑھ سال پہلے اس نتیجے پر پہنچا کہ کوئی سرکاری افسر جو ملازمت سے ریٹائر ہوچکا ہو ’’آٹھویں آسمان‘‘ کو نہیں چھو سکتا گھنٹوں افسران بالا اور اعلیٰ وکلا کے دفتروں کے باہر اور ناکام ہو کر بھی اس نتیجے پر پہنچا کہ آپ ساتوں آسمان تک پہنچ کر اللہ سے تو کام کرواسکتے ہیں لیکن آٹھویں آسمان تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ ہی اپنی عرضداشت وہاں پہنچا سکتے ہیں۔ میں جو خود بھی ایک سرکاری ادارے کا سربراہ رہ چکا ہوں اور میں نے کبھی کسی کو تنگ نہیں کیا۔ کبھی کسی کو کمرے سے باہر انتظار کی تکلیف نہیں دی۔ اس زعم میں تھا کہ شاید میرا یہ حال نہ ہو جو ہوا۔ آخر 20 مہینے کی سعی لاحاصل کے بعد ہار مان لی اور یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ آٹھویں آسمان پر بیٹھے زمینی خدائوں تک پہنچا ناممکن ہے۔ آٹھویں آسمان پر بیٹھی یہ مخلوق، اُن کی بیگمات اور اولاد، غرور و تکبر، بدمزاجی اور بے ہودگی کی آخری اونچائی پر رہتی ہے اور آٹھویں آسمان سے نیچے زمین پر بھی نہیں آتی بلکہ سیدھی قبر میں چلی جاتی ہے۔ لیکن جب تک زندہ رہتی ہے اس کی اکڑ برقرار رہتی ہے اور برملا کہتی ہے بعدازمرگ جو ہوگا سو ہوگا دنیا تو عیش و آرام کے لیے ہے۔

’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘

جہاں تک حکومت سندھ کی کارکردگی کا حال ہے، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر آپ اللہ میاں سے سندھ حکومت کے کسی افسر سے کام کرانے کی دعا کریں تو نعوذباللہ اوپر سے یہ صدا آئے گی کہ ’’ان شیطان صفت انسانوں یا شیطانوں کو میں نے ہی قیامت تک چھوٹ دے رکھی ہے اور یہ کام انہی کے شیطانی طریقہ کار سے کروالیں اور اگر زیادہ التجا کرنی ہو تو میں اوپر ساتویں آسمان پر بلا لیتا ہوں۔

تمہارے سارے کام ہوجائیں گے اور اب تو یہ وقت آگیا ہے کہ کسی کے ہاتھ میں ذرا بھی طاقت آجاتی ہے تو آٹھویں آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ ہماری سوچ کی انتہا صرف ساتویں آسمان تک ہے۔

لکھ دے کتاب دل پہ وہ داستان
جس کی سات آسمانوں میں مثال نہ ملے

اے ابن آدم اگر آپ نے اس کالم کے عنوان کو سمجھ لیا ہے تو آپ کو ایک چیز سمجھاتا ہوں آپ صرف جماعت اسلامی کے ذمے داروں سے جب چاہیں اپنے مسائل کے حل کے لیے مل سکتے ہیں، چاہے وہ امیر جماعت ہو یا ٹائون کا ناظم ہو یہ واحد سیاسی، مذہبی، سماجی جماعت ہے جو زمین پر رہتے ہوئے زمین والوں کی خدمت کرتی ہے مجھ سے جب بھی کسی پروگرام میں کوئی ملکی سیاست یا ملکی حالات پر بات کرتا ہے تو میں ایک بات سب سے ضرور کہتا ہوں کہ کاش ان 76 سال میں اس قوم نے جماعت اسلامی کو حکمرانی کا ایک موقع دیا ہوتا تو آج ملک کا یہ حال ہرگز نہیں ہوتا۔ فرعون نما حکمران، فرعون بیوروکریسی، فرعون سیاستدان، فرعونی سرمایہ دارانہ نظام آپ کا مقدر بن چکا ہے ان فرعونوں سے صرف قوم کو جماعت اسلامی بچا سکتی ہے نہ مانو تو تمہاری مرضی۔