وزیر دفاع بلکہ ’’وزیر جنگ‘‘ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغانستان سے حملہ آور سرحد عبور کرکے پاکستان میں آکر حملہ کررہے ہیں۔ طالبان سرحد پار کر رہے ہیں یہ سب اس سازش کا حصہ ہے جو پاکستان کے دشمنوں نے خواب دیکھ رکھا ہے کہ خیبر پختون خوا کو پاکستان سے الگ کیا جاسکے۔ اس سازش کی ’’سیاسی سہولت کار‘‘ پی ٹی آئی ہے۔ یہ صورت حال ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے۔ (روزنامہ دنیا کراچی یکم دسمبر 2024ء)
پاکستان کلمہ طیبہ کے نام پر وجود میں آیا تھا اور کلمہ طیبہ کے ماننے والے کسی ’’سیاسی دشمنی‘‘ کیا سیاسی تفریق پر بھی یقین نہیں رکھتے۔ مگر بدقسمتی سے قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستان ایسے جرنیلوں اور ایسے سیاست دانوں کے ہاتھ میں آگیا جن کا نہ کوئی خدا تھا نہ کوئی رسول تھا۔ جن کا نہ کوئی قرآن تھا نہ کوئی علم حدیث تھا۔ جن کی نہ کوئی فقہ تھی نہ کوئی اخلاقیات، جن کی نہ کوئی امت تھی نہ ملت اور نہ کوئی قوم چنانچہ پاکستان 1954ء سے ایسی سیاست کی گرفت میں ہے جس کے دائرے میں سیاسی حریفوں کو غدار باور کرایا جاتا ہے۔ جنرل ایوب کی محترمہ فاطمہ جناح کے سامنے کیا اوقات تھی۔ جنرل ایوب ایک سرکاری ملازم تھا اور مادرِ ملت پاکستان کے بانی کی بہن۔ جنرل ایوب کی حب الوطنی تو مشتبہ ہوسکتی تھی مگر فاطمہ جناح کی حب الوطنی ہر شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ مگر محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب کے مقابلے پر صدارتی انتخاب لڑا تھا۔ چنانچہ جنرل ایوب جیسے ناپاک جنرل نے قومی اخبارات میں آدھے آدھے صفحے کے ایسے اشتہارات شائع کرائے جن میں محترمہ فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ باور کرایا گیا تھا۔ یہ ضلالت کی انتہا تھی۔ پاکستان محترمہ فاطمہ جناح کے بھائی نے بنایا تھا اور محترمہ فاطمہ جناح کا بھارت سے کوئی تعلق نہ تھا مگر جنرل ایوب نے پوری بے شرمی اور پوری ڈھٹائی سے مادر ملت پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح چاہتیں تو جواب میں جنرل ایوب کو امریکی ایجنٹ کہہ سکتی تھیں اور یہ الزام غلط نہ ہوتا مگر فاطمہ جناح کی تہذیب نے اپنے سیاسی حریف پر ایسا الزام لگانا پسند نہ کیا۔
مشرقی پاکستان کے بنگالی برصغیر کے سیاسی شعور کا نقطہ عروج تھے۔ انہوں نے 1906ء میں مسلم لیگ قائم کرکے برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی مفادات کے تحفظ کی سبیل کی تھی۔ شیخ مجیب الرحمن تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے۔ وہ مسلم لیگ کے جلسوں میں بٹ کے رہے گا ہندوستان لے کے رہیں گے پاکستان کا نعرہ لگاتے تھے۔ لیکن مغربی پاکستان کی فوجی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے بنگالیوں کے خلاف پہلے دن سے جبر اور ظلم روا رکھا۔ بنگالی آبادی کا 56 فی صد تھے مگر 1960ء کی دہائی تک فوج میں ایک بھی بنگالی نہیں تھا۔ بنگالی آبادی کا 56 فی صد تھے مگر پوری بیوروکریسی پر پنجابیوں، پشتونوں اور مہاجروں کا قبضہ تھا۔ بنگالی 56 فی صد ہونے کے باوجود بیوروکریسی میں دو تین فی صد تھے۔ اقتدار پر قابض پنجابی اور پشتون مشرقی پاکستان کی پٹ سن سے ہونے والی آمدنی کو مغربی پاکستان پر خرچ کررہے تھے۔ جس کی وجہ سے ایک بار شیخ مجیب نے کہا تھا کہ مجھے مغربی پاکستان کی فضائوں سے پٹ سن کی بُو آتی ہے۔ 1971ء میں جب پاکستان دولخت ہوا تو فوج میں بنگالیوں کی موجودگی صرف 8 سے 10 فی صد تھی۔ حالانکہ وہ آبادی کا 56 فی صد تھے۔ اس صورت حال نے مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کی فوج، بیوروکریسی اور سیاست دانوں کے خلاف سخت ردعمل پیدا کیا۔ 1970ء میں انتخابات ہوئے تو مشرقی پاکستان کے لوگوں کی عظیم اکثریت نے شیخ مجیب کی عوامی لیگ کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرادیا۔ سیاسی کھیل کے اصولوں کا تقاضا یہ تھا کہ جنرل یحییٰ اور بھٹو دونوں بنگالیوں کی سیاسی رائے کا احترام کرتے ہوئے اقتدار شیخ مجیب الرحمن کے حوالے کردیتے مگر جنرل یحییٰ اور بھٹو دونوں نے عوامی لیگ کی سیاسی فتح کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ جنرل یحییٰ نے شیخ مجیب اور عوامی لیگ کو ’’غدار‘‘ باور کراتے ہوئے ان کے خلاف بے رحمانہ فوجی آپریشن شروع کردیا اور بھٹو نے ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگا کر شیخ مجیب کے حق اقتدار کا انکار کردیا۔ بنگالی پاکستان بنانے والے تھے وہ غدار کیسے ہوسکتے تھے۔ وہ صرف اپنے سیاسی اور معاشی حقوق مانگ رہے تھے مگر مغربی پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی اختلاف کو دشمنی میں ڈھال کر بنگالیوں کو غدار قرار دے دیا اور علٰیحدگی کے راستے پر ڈال دیا۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا کا تحریک پاکستان اور قیام پاکستان میں کوئی کردار نہیں تھا مگر قائداعظم کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پنجابی اور پشتون اشرافیہ پاکستان کی ’’باپ‘‘ بن کر کھڑی ہوگئی اور حب الوطنی کی اسناد بانٹنے لگی۔ اس صورت حال پر محسن بھوپالی نے ایک غیر معمولی قطعہ لکھا انہوں نے کہا۔
تلقینِ اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
راہِ طلب میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور انہوں نے بھٹو کو ایک جھوٹے مقدمے میں سزائے موت دلوانے کا جرم کیا تھا لیکن بھٹو خاندان اور پی پی پی صرف جنرل ضیا الحق کے ’’سیاسی حریف‘‘ تھے۔ وہ ’’ملک دشمن‘‘ اور ’’غدار‘‘ نہیں تھے۔ مگر ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران جنرل ضیا الحق نے دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی پر اتنا ظلم کیا جتنا ظلم صرف ’’غداروں‘‘ پر کیا جاسکتا ہے۔ جنرل ضیا الحق نے ایم آر ڈی کی تحریک کے خلاف دیہی سندھ میں گن شپ ہیلی کاپٹر تک استعمال کیے۔ المرتضیٰ منظر پر ابھری تو جنرل ضیا الحق کے وارے نیارے ہوگئے۔ جنرل ضیا الحق نے المرتضیٰ کو پیپلز پارٹی سے منسلک کرکے پیپلز پارٹی کے ’’دہشت گرد‘‘ اور ’’غدار‘‘ ہونے کے تاثر کو عام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ حالانکہ پی پی پی جنرل ضیا الحق کی سیاسی حریف تھی ’’غدار‘‘ نہیں۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران دیہی سندھ میں جنرل ضیا الحق کا ظلم اتنا بڑھا کہ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر غفور اور جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ مولانا نورانی نے تواتر کے ساتھ یہ بیان دیا کہ سندھ میں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا ہوگئے ہیں۔
الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست ہولناک اور شرمناک تھی۔ انہوں نے مہاجروں کے مذہبی اور تہذیبی تشخص کو تباہ کردیا۔ انہوں نے مہاجروں سے ان کا علم اور محنت کی خو چھین کر انہیں دہشت گرد اور بھتا خور بنادیا۔ مگر 1990ء تک الطاف حسین سب کچھ تھے ’’غدار‘‘ نہیں تھے مگر 1990ء میں ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہوا تو بریگیڈیئر ہارون نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین پر الزام لگایا کہ وہ کراچی کو ’’جناح پور‘‘ بنانے کی سازش کررہے ہیں۔ یہ ایک بڑا الزام تھا اور فوج کی ذمے داری تھی کہ اس کے پاس اس سلسلے میں ٹھوس ثبوت تھے تو وہ انہیں قوم کے سامنے پیش کرتی مگر ایسا نہ ہوا بلکہ بریگیڈیئر ہارون کے بیان کے اگلے ہی روز بریگیڈیئر ہارون کو کراچی آپریشن سے الگ کرکے پنڈی بلالیا گیا۔
نواب اکبر بگٹی نے پوری زندگی ’’پرو پاکستان‘‘ سیاست کی اور مرکز کی حمایت سے وہ کئی بار اقتدار میں آئے۔ مگر جنرل پرویز مشرف نے انہیں دھمکی دی کہ تمہیں ایسی چیز ہٹ کرے گی کہ تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا کہ تم پر کہاں سے حملہ ہوا ہے۔ یہ بھی ایک سیاسی حریف کو غدار بنانے کا عمل تھا۔ بدقسمتی سے جنرل پرویز نے ڈرون حملے کے ذریعے بگٹی کو قتل کرادیا۔
عمران خان بھٹو اور نواز شریف کی طرح جرنیلوں کی پیشکش تھے۔ جب تک وہ جرنیلوں کے اشاروں پر ناچ رہے تھے ان کے کردار و عمل میں کوئی خامی نہیں تھی بلکہ وہ پوری قوم کے ہیرو اور محسن تھے مگر جب سے وہ جرنیلوں کے اثر سے نکلے ہیں اور انہوں نے جرنیلوں کی فسطائیت کی مزاحمت شروع کی ہے ان میں ہر عیب تلاش کر لیا گیا ہے۔ ان کی سابقہ بیوی ریحام خان سے عمران خان کے خلاف پوری کتاب لکھوائی گئی جس میں عمران خان کو جنسی درندہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان کے بارے میں اس تاثر کو عام کیا گیا کہ انہیں ریاست چلانا ہی نہیں آتی۔ یہاں تک کہ پاکستانی جرنیلوں اور سیاست دانوں کی روایت کے عین مطابق خواجہ آصف نے عمران خان کی پارٹی کو ملک توڑنے کی سازش کا سہولت کار قرار دیا ہے۔ بلاشبہ عمران خان میں بڑی خرابیاں ہوں گی مگر وہ یا ان کی جماعت نہ کبھی غدار تھی نہ ہے۔ عمران خان اس وقت ملک کے سب سے بڑے اور مقبول سیاست دان اور ان کی جماعت ملک کی سب سے مقبول جماعت ہے۔ وہ 2024ء کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کررہی تھی مگر جنرل عاصم منیر نے الیکشن کو اغوا کرواکر نتائج بدل ڈالے اور فارم 47 کے حامل شریفوں کو ملک پر مسلط کردیا۔ یہ بات بھی کم بڑا ظلم نہیں ہے مگر عمران خان کی جماعت کو ملک دشمن کہنا ظلم اور جبر کی انتہا ہے۔