بدن بولی کی زبان

275

ساری دُنیا میں بے شمار زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں الفاظ اور جملوں کے ذریعے گفتگو کی جاتی ہے۔ لیکن ایک زبان ایسی ہے جس میں نہ الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے نہ جملوں کی اور نہ ہی اشاروں کی، یعنی یہ اشاروں کی زبان نہیں ہے۔ یعنی شعوری اشاروں کی زبان نہیں ہے، البتہ اس میں انسان کا پورا جسم ہی زبان بن جاتا ہے اور دوسرے اس کو سمجھتے ہیں یا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اس کو کہتے ہیں بدن بولی (باڈی لینگویج)
انسانی شخصیت کے مطالعے میں بدن بولی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے جتنی کے کسی کتاب کا پہلا باب یا پھر مقدمہ یا پیش لفظ۔ یعنی کسی شخص کی بدن بولی اس کی شخصیت اور سوچ کی سمت سے آگاہ کردیتی ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ منہ سے نکلنے والے جملے اور الفاظ کے ساتھ ساتھ اشاروں اور جسمانی حرکات سے بھی بہت کچھ جانا اور سمجھا جاسکتا ہے بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ صحیح ہے کہ بدن بولی ابلاغ کا ایسا ذریعہ ہے جس میں کچھ کہے بغیر ہی لوگ دوسرے کا مطلب و مدعا سمجھ لیتے ہیں۔ اس میں بھی سب سے اہم چہرہ ہوتا ہے اور چہرے میں سب سے اہم آنکھیں جو کبھی جھوٹ نہیں بولتیں اسی لیے جب کوئی دوسروں سے کچھ چھپانا چاہتا ہے تو آنکھیں ملانے سے کتراتا ہے۔ یوں تو بدن بولی کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی سچی بولی ہے۔ کیوں کہ انسان جو کچھ محسوس کرتا ہے اسی کا اظہار اس کا جسم کررہا ہوتا ہے۔ ایک طرف انسان کا جسم سچ بولنے کے لیے آمادہ رہتا ہے حالانکہ اُسے نطق کی صلاحیت نہیں دی گئی۔ ایک وقت آئے گا کہ یہ صلاحیت مل جائے گی، پھر جسم کا ہر حصہ فرفر بولے گا اور سچ سچ گواہی دے گا لیکن اس دنیا میں دوسری طرف انسان اپنا ذہن، صلاحیت، زبان سب ہی استعمال کرکے جھوٹ پھیلانے میں مصروف رہتا ہے۔ جی ہاں یہ جعلی خبریں جھوٹ ہی تو ہیں جن کی تشہیر بعض دفعہ انتہائی خلوص اور لگن سے کی جارہی ہوتی ہے۔ آئے دن دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے ذریعے جعلی خبریں اور معلومات پھیلائی جارہی ہوتی ہیں۔ جعلی خبریں اور معلومات یقینا ففتھ جنریشن وار فیئر کی شکل ہے۔ ساری دنیا کے ممالک امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا سمیت جعلی خبروں کے مسائل کا شکار ہیں، یہ ممالک دنیا کو بھی اپنی غلط اور جعلی خبروں کی بنیاد پر تباہی سے دوچار کرتے رہے ہیں۔ عراق میں وسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں یا ان دہشت گردوں کا جو ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے تھے کچھ اتا پتا نہیں ملا، ان کو عراق کو تباہ کردینے اور مکمل قبضے کے بعد بھی کوئی کمزور سا ثبوت بھی نہیں ملا پھر بھی بے پناہ قتل و غارت کے بعد کسی قسم کی شرمندگی کے اظہار کے بغیر… اپنی ناانصافی پر قائم رہے۔ بلکہ اُسے انصاف قرار دینے کی کوششیں بھی کرتے رہے۔ اس وقت کے امریکی وزیر دفاع کہتے ہیں کہ کچھ باتیں ایسی ہیں جن کو ہم نہیں جانتے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں جن باتوں سے ہم لاعلم ہیں ان کا وجود نہیں۔
ملکی سطح پر پچھلے دنوں پاکستان میں لاہور کے کسی تعلیمی ادارے میں ریپ کا شور اٹھا جسے سوشل میڈیا میں خوب خوب پھیلایا گیا لیکن کوئی ثبوت نہ سوشل میڈیا ہینڈلر کو ملا نہ تحقیقاتی اداروں کو نہ ہی لاہور ہائی کورٹ میں مدعی نے کوئی ثبوت دیا۔ آج بھی اس کا غصہ موجود ہے لوگ پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ثبوت کو دفنا دیا گیا، چھپا دیا گیا، کمالِ مہارت کے ساتھ۔ یعنی سچ پر یقین آسان نہیں لوگ ثبوت ڈھونڈتے ہیں پھر انہی ثبوتوں پر شک کے تیر تفنگ کے ساتھ حملہ آور ہوتے ہیں۔ یا بہت سے خبروں رپورٹوں کو سن سن کر تجزیہ کار بننے کے عمل سے گزرتے ہیں۔ اس میں قصور وار حکومت تو ہے ہی ساتھ میڈیا ادارے خاص طور سے سوشل میڈیا بھی ہے۔ جو ویوز کی لالچ میں آکر سچ جھوٹ کی ملاوٹ کرتے ہیں دبائو میں آتے ہیں۔ کمزور سچائی کو بڑی سچائی اور بڑی سچائی کو کمزور سچائی بنانے میں دیر نہیں لگاتے بس مفادات کا شہد بہت زیادہ اور بہت میٹھا ہونا چاہیے۔ جو شاید انہیں کبھی ہوس کے مطابق مل جاتا ہو لیکن پھر موت کی تلخی آن پہنچتی ہے اور اعضا کی بدن بولی کو بھرپور زبان مل جانے کا وقت قریب آن پہنچتا ہے۔