پشتون جذبات، پرانی غلطی کا اعادہ

436

دنیا تغیر پزیر ہے اور یوں لگتا ہے کہ ایک بار پھر وہ مقام آچکا ہے جب ایک صدی یا اس سے کم عرصے میں دنیا کے نقشے پر آڑی ترچھی لکیریں پھرتی ہیں۔ وقت کے اس گھن چکر سے صرف وہی بچ پاتے ہیں جو حکمت، تدبر اور وقت کی ہوا اور دبائوکے ساتھ لچک جانے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دنیا کی تشکیل نو اور تنظیم نو کے لاتعداد بلیو پرنٹس مغرب کے تحقیقی اداروں کی الماریوں میں پہلے سے تیار پڑے ہیں۔ ایسے میں امریکا کے ایک جانے پہچانے ڈپلومیٹ زلمے خلیل زاد کا ایک ٹویٹ چونکا دینے کا باعث بنا ہے۔ جس میں وہ کہتے ہیں کیا ایسا ممکن ہے کہ شام اور لبنان دوبارہ متعدد چھوٹی اور ڈی فیکٹو ریاستوں میں تقسیم ہوجائیں جیسا کہ وہ ماضی میں بھی ہوا کرتے تھے۔ اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ امریکی فیصلہ ساز مشرق وسطیٰ میں ملکوں کی تشکیل ِ نو کے روایتی اور قدیم منصوبے کے بارے میں ایک سوچ رکھتے ہیں اور اس کے لیے مناسب وقت کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اسی دوران بنگلا دیش کے دواہم راہنمائوں کے بیانات بھی سامنے آئے ہیں اور دونوں راہنمائوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ بنگلا دیش کو جغرافیائی تقسیم کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ ان میں پہلا بیان جماعت اسلامی کے لیڈر شفیق الالسلام کا ہے جو کہتے ہیں ’’ہم اپنی جانیں قربان کریں گے لیکن بنگلا دیش کی سرزمین کے ایک انچ پر بھی کسی کا قبضہ قبول نہیں کریں گے۔ آسمان پر سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں اور کالے گدھ نظر آرہے ہیں۔ انہیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے‘‘۔

خالدہ ضیا کی جماعت بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کے راہنما اور ڈھاکا کے سابق میئر مرزا عباس الدین نے دوٹوک انداز میں یوں بات کی ہے ’’بھارت بنگلا دیش کو تقسیم کرکے دو ریاستوں میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ چٹاگانگ پر قبضے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ ہمارے بیٹے اور بیٹیاں اکہتر میں بغیر ہتھیاروں کے لڑے تھے ہم ایک بار پھر بغیر ہتھیاروں کے لڑیں گے۔ بنگلا دیش کی فوج چھوٹی ہے مگر اس کے بائیس کروڑ عوام اس کی فوج ہیںجن سے تمہیں لڑنا پڑے گا‘‘۔ زلمے خلیل زاد نے مشرق وسطیٰ میں سرحدوں کی تنظیم نو کا اشارہ دیا تو جنوبی ایشیا میں بنگلا دیش میں انہی خدشات کا برملا اظہار ہونے لگا ہے۔ یہ سب کچھ بے سبب نہیں کیونکہ دھواں وہیں اُٹھتا ہے جہاں آگ جل رہی ہو۔ چند دن قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے اعلان کیا ہے کہ کچھ قوتیں خیبر پختون خوا کو الگ کرنا چاہتی ہیں اور یوں تیسری گواہی بھی سامنے آگئی۔ اس سے پہلے یہ بات بلوچستان کے حوالے ہی سے کی جاتی تھی اب معاملہ پھیل کر پختون خوا تک پہنچ گیا ہے۔ خواجہ آصف نے جس خدشے کا اظہار کیا ہے وہ ایک حقیقت ہے اور پاکستان کی جغرافیائی تشکیل نو کے بلیو پرنٹ امریکی تھنک ٹینکس میں موجود ہیں جن میں ایک مخصوص مدت سے آگے تو موجودہ پاکستان کا نقشہ ہی نہیں دکھایا گیا۔ پاکستان کے محب وطن عناصر نے اس وقت کو ٹالنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی مگر حالیہ چند برسوں میں پاکستان کی ریاست جس دام میں دوبارہ پھنس گئی وہاں ہونی کو انہونی میں بدلنا خاصا مشکل ہو گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کسی ریاست کی مجموعی پالیسی عالمی منصوبے کو راہ دینے کی ہے یا مزاحمت کی ہے۔ کوئی بھی ریاست ایسی پالیسی اپناتی ہے کہ ملک کا ہر طبقہ مقناطیس کی طرح اس کے ساتھ جڑ جاتا ہے یا ریاست انگریزی کی اصطلاح میں Repulsive force بن کر اپنے سے جڑنے اور اپنی طرف لپکنے والے عوام کو جھڑک کر پیچھے دھکیلتی ہے۔ مشرقی پاکستان میں لوگوں کو دیوار سے لگانے کا رویہ اپنا کر ریاست مجموعی طور پر یہی غلطی کربیٹھی تھی۔

یہ 1966 کا سال تھا جب پاکستان اور بھارت کی جنگ کو ختم ہوئے ایک سال ہوچکا تھا اور بنگالی عوام معاہدہ تاشقند سے ناخوش بھی تھے اور انہیں اس جنگ کے باعث عدم تحفظ کا شدید احساس ہوچکا تھا کیونکہ پاکستان کے حکمرانوں نے مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کا دفاع کرنے کا ڈاکٹرائن اپنایا تھا جو محض خود فریبی تھی۔ درحقیقت اس جنگ میں مشرقی پاکستان کے دفاع کی ذمے داری چین کو ہی سونپی گئی تھی۔ اس کیفیت میں مشرقی پاکستان کا عدم تحفظ میں مبتلا ہونا فطری تھا کیونکہ وہ دوبارہ بھارت کی غلامی میں جانا نہیں چاہتے تھے۔ اس عمل نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو کچھ نیا سوچنے پر مجبور کیا تھا۔ اسی دوران اُردو ڈائجسٹ کے مدیر اور معروف صحافی الطاف حسن قریشی نے مشرقی پاکستان کا تفصیلی دورہ کرکے ’’محبت کا زمزم بہہ رہا ہے‘‘ کے عنوان سے حالات کا بھرپور تجزیہ کیا۔ یہ سقوط ڈھاکا سے پانچ برس پہلے کی بات ہے۔ الطاف حسن قریشی نے اس تجزیے میں جہاں بہت کھل کر مشرقی پاکستان کی سیاسی سماجی معاشی محرومیوں کا بے لاگ تجزیہ کیا وہیں انہوں نے مغربی پاکستان والوں کو یہ مژدہ بھی سنایا کہ ڈھاکا اور نواکھلی میں محبت کا زمزم بہہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں اس حوالے سے ان پر تنقید ہوتی رہی کہ جب مشرقی پاکستان میں علٰیحدگی کی تحریک زوروں پر تھی تو وہ مغربی پاکستان والوں کو وہاں محبت کے زمزم بہنے کی خبر سنا رہے تھے۔ اس وقت مغربی پاکستان میں ایک ایسا مائنڈ سیٹ وجود میں آچکا تھا اور نمو پا چکا تھا جو مشرقی حصے کو ایک بوجھ سمجھنے لگا تھا۔ الطاف حسن قریشی نے اس کا تذکرہ یوں کیا تھا۔ ’’مغربی پاکستان میں بھی انتہا پسند ذہن دیکھنے میں آیا ہے۔ اس ذہن کے نمائندے کہتے سنے گئے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے لوگ طبیعت کے اعتبار سے ہنگامہ پرور واقع ہوئے ہیں۔ برصغیر ہند کے اسلامی عہد میں یہ علاقہ ہمیشہ مرکز کے خلاف بغاوت کرتا رہا ہے اور اب یہ اس کا ذہنی طرز عمل ہے۔ آپ اس پر کتنا ہی پیسہ خرچ کردیجیے وہ بالآخر الگ ہو کر ہی رہیں گے‘‘۔

آگے چل کر وہ لکھتے ہیں ’’مجھے پورا یقین اور اعتماد ہے کہ مشرقی پاکستان ہم سے الگ نہیں ہوگا۔ جہاں تک عوام کے جذبات اور احساسات کا تعلق ہے وہ علٰیحدگی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے بلکہ انہیں یہ لفظ سن کر سخت روحانی تکلیف ہوتی ہے‘‘۔ اگر الطاف حسن قریشی کا یہ تجزیہ درست ہے تو پھر ایسے کون سے عوامل تھے کہ پانچ سال بعد ہی اس آبادی کا بڑا حصہ الگ وطن کے مطالبے کا حامی بن گیا؟ ظاہر ہے کسی پالیسی کا بیک فائر ہوا ہوگا کہ پانچ سال بعد حالات یکسر تبدیل ہو کر رہ گئے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک المیہ ہے۔ جس میں پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی غلطیوں کا گہرا عمل دخل تھا۔ آج پاکستان جس ہمہ جہتی بحران میں گھرگیا ہے عالمی منصوبے اس کی سنگینی کو بڑھا رہے ہیں۔ اب یہ پاکستان کے فیصلہ سازوں پر منحصر ہے کہ وہ خطرات اور خدشات کے اس بھنور سے کشتی کو بچا کر کیسے نکالتے ہیں؟ ابھی تک حکمران طبقات جو پالیسی اپنائے ہوئے ہیں وہ زیادہ خوش کن نہیں۔ پاکستان کی پشتون آبادی کو مسلسل ناراض اور نالاں کرنے کا عمل جاری ہے۔ ایک انا پرست، بہادر نڈر اور مدتوں تک دشمنی چلانے اور دوستی نبھانے والا یہ طبقہ دیوار سے لگتا جا رہاہے۔ پشتون پاکستان کی طاقت اور اس کے جغرافیائی وجود میں پنہاں پوٹینشل کا دوسرا نام ہے۔ 2003 میں بھارت کے ایک سفر کے دوران دہلی لائنز کلب کی ایک تقریب میں کھانے کی میز پر ایک مسلمان صحافی سے میں نے پوچھا کہ کیا بھارت میں پاکستان یا اس کے ایٹم بم کے حوالے سے کوئی خوف محسوس کیا جاتا ہے؟۔ تو اس کا بے ساختہ جواب تھا کہ بھارتی کوئی خاص خوف محسوس نہیںکرتے۔ ہاں پاکستان میں ’’پٹھان ذہنیت‘‘ سے انہیں دھڑکا لگا رہتا ہے کہ یہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

اپنی اس طاقت کو راجا پورس کا ہاتھی بنانا قطعی غیر حکیمانہ رویہ ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان کی ریاست کو جب بھی ضرورت پڑی تو اس آبادی نے جانیں لڑا کر فتح کا سندور ریاست کی مانگ میں بھرا ہے۔ ڈی چوک میں اس آبادی کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ گولیوں سے جان بچانے والوں پر دم دبا کر بھاگنے کی پھبتی کسی گئی۔ جواب میں کے پی کے اسمبلی میں بندوق کا مقابلہ بندوق سے ہوتا ہے کی سخت ترین بات سننا پڑی۔ اس آبادی کے ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا اور خالص سیاسی کارکنوں کو کالے تھیلے پہنا کر جس طرح تضحیک کا نشانہ بنایاجا رہا ہے کسی طور اچھا شگون نہیں۔ ان پر افغان ہونے کا لیبل لگایا جاتا ہے اور پنجاب میں پشتون آبادی کی پروفائلنگ اور ان کو ذہنی اذیت پہچانے اور نفرت کا نشانہ بنانے کی روش اس بڑے طبقے کو حالات سے مایوس کرنے اور ریاست کے وجود سے پرے دھکیلنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش ہے۔ اس کا کیا کیجیے کہ پشتون آباد ی کے مجموعی جذبات عمران خان کے ساتھ جڑ کررہ گئے ہیں اور ان کے روایتی لیڈر ایمل ولی خان اور دوسرے قوم پرست نام جو طورخم پھاٹک کو اٹک پر نصب کرنے کے علمبردار ہوا کرتے تھے غیر موثر اور نامعتبر قرار پاچکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ریاست غیر موثر اور غیر مقبول قیادت کو گود لے کر ان کی مقبول اور موثر قیادت سے لڑائی مول لیے بیٹھی ہے اور یوں بقول الطاف حسن قریشی محبت کا زمزم بہتا چلا جا رہا ہے۔