بھارت کی ریاست اتر پردیش کے شہر سمبھل کے مسلم کش فسادات پر اب بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں لوک سبھا میں بھی گرما گرم بحث شروع ہوگئی ہے۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکِھلیش یادو نے سمبھل کے مسلم کش فسادات کو دہلی اور لکھنؤ کی لڑائی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی معاملات میں پائی جانے والی پیچیدگیوں اور جھگڑوں کا رُخ موڑنے کے لیے بے قصور لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اکِھلیش یادو کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے معاملات کو بگاڑ رہی ہے اور جہاں بظاہر کوئی جھگڑا نہیں وہاں بھی فسادات کی آگ بھڑکانے پر تُلی ہوئی ہے۔
اکِھلیش یادو نے لوک سبھا میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سمبھل میں شاہی جامع مسجد کے سروے کا عدالتی حکم آیا تو مسلمانوں کے جذبات بھڑک اٹھے۔ یہ فطری امر تھا مگر بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معاملات کو بگاڑا، ہنگامہ آرائی کی راہ ہموار کی، ایسے حالات پیدا کیے جن کے نتیجے میں مسلمانوں اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا۔
سماج وادی پارٹی کے سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ بی جے پی کی قیادت چاہتی ہی نہیں کہ اتر پردیش میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا ہو، لوگ اپنی اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ سُکون اور ہم آہنگی کے ساتھ جئیں۔
سمبھل میں مغل دور کی شاہی جامع مسجد کے بارے میں انتہا پسند ہندو گروپوں نے عدالت میں دائر ایک درخواست میں کہا تھا کہ مسجد کی تعمیر سے قبل وہاں مندر ہوا کرتا تھا۔ اس پر عدالت نے سروے کا حکم دیا۔ جب سروے ٹیم پولیس کے ساتھ شاہی جامع مسجد پہنچی تو ہنگامہ برپا ہوگیا۔ پولیس کی فائرنگ سے پانچ افراد جاں بحق اور بیسیوں زخمی ہوئے۔ ایک ہفتے تک سمبھل میں کشیدگی رہی ہے۔