جاپان کے لیے چینی اعتماد سازی

284

معروف جریدے نیوز ویک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق چین نے جاپان کے خصوصی اقتصادی زون (EEZ) میں نصب کی گئی ایک بْوئے (Buoy) کو ہٹانے پر رضا مندی ظاہر کی ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا باعث بنی ہوئی تھی۔ یہ فیصلہ خطے میں جاری سمندری تنازعات کے پس منظر میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے (واضح رہے کہ بْوئے buoy پانی میں تیرنے کی صلاحیت رکھنے والا ایک ایسا انسٹرومنٹ ہوتا ہے جو سمندر، دریا، یا جھیل میں نصب کیا جاتا ہے۔ جسے مختلف مقاصد مثلاً موسمی حالات کی نگرانی (Weather Monitoring) ؍ سمندری کرنٹس کے تجزیے (Ocean Currents Analysis) ؍ بحری راستوں کی نشاندہی (Navigation Aid) کے علاوہ ماحولیاتی ڈیٹا اکٹھا (Environmental Data Collection) کرنے کے مقاصد شامل ہیں۔ ان انسٹرومنٹ کو سمندری اور ماحولیاتی تحقیق کے لیے انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے اور انہیں بحری حدود کے تحفظ کی غرض سے بھی استعمال کیا جاتا ہے، بعض اوقات ان کا استعمال خصوصاً حساس علاقوں میں سیاسی اور علاقائی تنازعات کو بھی جنم دیتا ہے.)

یہ چینی بْوئے جاپان کے EEZ میں شیکوکو بیسن (Shikoku Basin) میں نصب کی گئی تھی، جو جاپانی جزیرے اوکینا توریشیما کے شمال میں واقع ہے۔ چونکہ اس علاقے کو جاپان کے EEZ سے تعبیر کیا جاتا ہے لہٰذا اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ علاقہ جاپان کے زیر ِ انتظام ہے، اور اس علاقے میں موجود قدرتی وسائل پر جاپان کو خصوصی حقوق حاصل ہیں۔

چین کی جانب سے اس بْوئے کو موسمی اور سمندری ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے نصب کیا گیا تھا، لیکن جاپان نے اس پر سخت احتجاج کیا تھا کیونکہ چین نے جاپان کو اس حوالے سے پیشگی اطلاع نہیں دی تھی۔ رواں سال جولائی 2024 میں جاپان کے چیف کیبنٹ سیکرٹری ہایاشی یوشی ماسا کی جانب سے ایک بیان میں اس اقدام کو ’’افسوسناک‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ یہ مسئلہ اس وقت مزید اہمیت اختیار کر گیا جب جاپان اور چین نے گزشتہ ماہ اکتوبر میں ٹوکیو میں اعلیٰ سطحی سمندری مذاکرات کیے۔ ان مذاکرات مشرقی چین کے سمندر میں موجود تنازعات خصوصاً سینکاکو جزائر (Senkaku Islands) کے حوالے سے امور بھی زیر بحث آئے، (سینکاکو جزائر جاپان کے زیر ِ انتظام ہیں، لیکن چین اور تائیوان دونوں ان پر دعویٰ کرتے ہیں۔ چین انہیں دیاؤیو (Diaoyu) جبکہ تائیوان تیاویو تائی (Tiaoyutai) کہتا ہے۔ چین ان جزائر پر 14 ویں صدی کے مِنگ خاندان کے تاریخی ریکارڈز کی بنیاد پر دعویٰ کرتا ہے۔

چین کی جانب سے بْوئے ہٹانے کا فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب حال ہی میں دونوں ممالک کے تعلقات متعدد مسائل کے باعث کشیدگی کی جانب بڑھتے نظر آرہے تھے، ان مسائل میں سینکاکو جزائر پر چین کی بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیاں، تائیوان کے حوالے سے چینی فوجی کاروائیوں کی وارننگ سمیت جاپان کی فضائی حدود میں چینی جاسوس طیارے کے داخلے جیسے امور شامل ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے، چین نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس کا ایک جاسوس طیارہ اگست میں مختصر وقت کے لیے جاپانی فضائی حدود میں داخل ہوا تھا، جسے جاپان نے اپنی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چین کے بْوئیز کے تنازعات صرف جاپان ہی نہیں جنوبی چین کے سمندر میں دیگر ممالک کے ساتھ بھی موجود ہیں۔ جس کی وجہ چین کی جانب سے 900 کلومیٹر کی اس سمندری پٹی پر دعویٰ ہے جسے وہ 9 ڈیش لائن کہتا ہے۔ اور اس سمندری علاقے کو علاقے کے دیگر ممالک چینی دعوے کے برعکس آزاد سمندری پٹی تصور کرتے ہیں۔

اس ضمن میں گزشتہ سال فلپائن نے بھی سپریٹلی جزائر میں اپنی بحری حدود کے دعوے کو مضبوط کرنے کے لیے نیوی گیشن بْوئیز نصب کیے تھے، جس کے جواب میں چین نے بھی اپنے بْوئیز نصب کر دیے۔ جیسا کہ ہم نے اس سے قبل 9 ڈیش لائن کا تذکرہ کیا، اس حوالے سے چین جنوبی چین کے سمندر کے 90 فی صد حصے پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے، واضح رہے کہ یہ تنازع 2016 میں ایک بین الاقوامی عدالت تک گیا تھا جس نے چین کے دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف فیصلہ کیا لیکن چین نے اپنی سمندری خودمختاری کے حوالے سے اس عدالتی فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔

بہر حال EEZ سے بْوئے ہٹانے کا چینی فیصلہ خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کی جانب اور اعتماد سازی کے اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جسے سفارتی اصطلاح میں conflict de.escalation کہا جاتا ہے۔ لیکن نظر یہ آرہا ہے کہ روایتی حریف جاپان اس حوالے سے محتاط رہے گا اور چین کے آئندہ اقدامات پر گہری نظر رکھے گا۔

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری یا مزید کشیدگی کا انحصار آنے والے دنوں میں ہونے والے سفارتی اقدامات اور خطے میں طاقت کے توازن پر ہوگا۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی مدنظر رہے کہ مشرقی ایشیا میں سمندری حدود اور وسائل کے تنازعات صرف علاقائی نہیں بلکہ بین الاقوامی سیاست اور طاقت کے کھیل کا حصہ ہیں اور جاپان اور چین جیسے ممالک کے لیے، ان تنازعات کا حل صرف اور صرف سفارتی مکالمے اور بین الاقوامی قوانین کے احترام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔