پارا چنار واقعہ، حکومت کہاں ہے؟

422

2000 کے بعد سے جائزہ لیں تو یہ حقیقت نظر انداز نہیں ہو سکتی کہ پر امن پاکستان نے افغانستان میں امریکی جنگ کا ساتھ دیکر جو خطرناک راستے کھولے اس کے ’اثرات بد‘ آج تک پاکستان پر شدید بدامنی کے سائے لہرا رہے ہیں۔ ہزاروں بے گناہ شہری اس کا ایندھن بن چکے۔ گزشتہ دنوں خبیر پختون خوا کے ضلع کرم پارا چنار میں پشاور آنے و جانے والی مسافر گاڑیوں پر وحشیانہ فائرنگ کے نتیجے میں شیر خوار بچوں خواتین سمیت درجنوں افراد جاں بحق کردیے گئے۔ کرم ضلع کی حدود تین مقامات سے افغانستان کے تین صوبہ جات سے ملتی ہے، کئی لوگ اس واردات میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کے اشارے دے رہے ہیں، جبکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے زہریلے پروپیگنڈے سے 2 اسلامی پڑوسی ممالک کے درمیان تنائو پیدا کیا جائے۔

ملک ویسے ہی سیاسی بحران کا شکار ہے، چینیوں پر حملے ہو رہے ہیں، بلوچستان الگ سلگ رہاہے، بم دھماکے ہو رہے ہیں، ایسے میں پارا چنار واقعے سے صوبہ خیبر پختون خوا میں امن وامان کی مخدوش صورتحال پر ہر محب وطن شہری غمزدہ و پریشان ہے۔ اس خطے میں مستقل بے گناہ لوگوں کا خون بہانا قابل مذمت ہونے کے ساتھ سیکورٹی اداروں اور بڑے بڑے آپریشن کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ منظم منصوبہ بندی کے تحت یہ فسادات کرانے کی سازش کی گئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وفاقی اور کے پی کی حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے ریڈ زون کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ ہم کئی سال سے حکمرانوں اور سیکورٹی ایجنسیوں کی جانب سے بار بار دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے دعوے سنتے ہیں اس کے باوجود ایسے واقعات کا مسلسل رونما ہونا لمحہ فکر ہے۔ اس ضمن میں قبائیلی تصادم اور زمینوں پر قبضے کی بات بھی کی جا رہی ہے کیونکہ پہلے بھی اس طرح کے دلخراش واقعات کے پیچھے یہ بات کہی گئی۔ مگر ہم تو حکومت کی جانب دیکھتے ہیں کہ معاملہ جو بھی ہو وہ کیا کر رہی ہے؟ اس میں کیا شک ہے کہ عوام کے درمیان لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تفریق اور تقسیم سے ملک کمزور ہوتا ہے۔ ضلع کرم پاراچنار میں مذہبی منافرت کی بنیاد پربڑے عرصی سے یہ ناسور افسوس ناک ہے۔ حالیہ انسانیت سوز سانحے پر ہر محب وطن شہری رنجیدہ ہے۔

دینی جماعتوں نے اس مقصد کے لیے ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم کو مضبوط کیا۔ اپنے قیام کے روز اوّل سے ملکی سالمیت، نظریاتی اثاثے کی حفاظت اور فرقہ وارانہ فسادات کے خاتمے کے لیے کوشاں رہی ہے۔ پاراچنار میں مسافر بسوں پر، جو سخت حفاظتی حصار میں کانوائے کی صورت جارہا تھا، اس پر وحشیانہ دہشت گرد حملہ ایک اور بڑا المناک واقعہ ہے۔ یہ صرف امن و امان پر ہی نہیں بلکہ قومی وحدت اور قومی سلامتی پر بھی حملے کے مترادف ہیں۔ حکومت عوام کو جواب دے کہ دہشت گرد اپنے اہداف کے حصول میں کیوں اور کیسے کامیاب ہیں اور سیکورٹی، انٹیلی جنس ادارے کیوں ناکام ہیں؟ اس ساری صورتحال میں حکومت کہاں ہے؟ پاراچنار سانحے سے لیکر خیبر پختون خوا وبلوچستان میں پے درپے دہشت گردی کے واقعات اور سندھ میں ڈاکو راج سے لگتا ہے کہ اس وقت ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے، اکتوبر میں پورے ملک میں 48 دہشت گردی کے حملے جبکہ صرف کے پی میں رکارڈ کیے گئے 35 حملے ہوئے جس میں مجموعی طور 500 افراد جان بحق ہوئے۔ اداروں کا اپنی اصل ذمے دارای کے بجائے دوسرے کاموں میں الجھنے سے بھی بیرونی قوتوں کو سازشوں کا موقع ملتا ہے اور اس طرح کے سانحات رونما ہوتے ہیں۔ اب تو 24 نومبر کا پی ٹی آئی احتجاج بھی ہو چکا، سب نے دیکھا کہ حکومت نے کیسے چیزوں کو خود خراب کیا۔ قومی ایکشن پلان پر ازسر ِنو قومی اتفاقِ رائے پیدا کرکے عمل کی ضرورت ہے، وگرنہ یہ بدامنی، انارکی میں بدلے گی اور سب کچھ خراب کر دے گی۔ سِول- ملٹری اسٹیبلشمنٹ قومی اتفاقِ رائے پیدا کرے، عوام اور سیکورٹی اداروں کے درمیان اعتماد کی بحالی امن کا راستہ ہوگا۔ ضلع کرم پاراچنار میں قیام امن کے لیے مستقل بنیادوں پر گرینڈ جرگہ تشکیل دیا جائے، بیگناہ لوگوں کے قتل عام میں ملوث عناصرکی سرکوبی اور سخت سزادی جائے۔ عدالت عظمیٰ فوری طور پر عدالتی کمیشن قائم کرکے اصل حقائق سے قوم کو آگاہ اور امن کے لیے پلان پیش کرے۔ ریاست اپنے قانون کی رٹ قائم کرے وگرنہ انتشار پھیلے گا، لوگ کیسے اور کب تک اپنے پیاروں کی لاشوں کو کندھا دیتے رہیں گے۔ ان کی اپنی قبائلی، خاندانی روایات ہیں، ریاست کو ہر مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ اس طرح کے خونریزی اور آمدو رفت کے راستوں کو محفوظ بنانے کی تمام ذمے داری حکومت کی ہے اس کے لیے پیشگی عملی و سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ آخری اطلاعات کے مطابق کرم میں فریقین کے درمیان 7 روزہ سیز فائر معاہدے کے حکومتی اعلان کے باوجود جھڑپیں جاری ہیں۔ جس میں مزید شہادتوں کی اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں۔ جہاں پر انٹرنیٹ، موبائل سروس، تعلیمی ادارے بدستور بند اور امتحانات بھی ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ آمدو رفت و رسد کے راستے بند ہونے کی وجہ سے ایندھن سمیت خوراک کی قلت پیدا ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ ضلع کرم میں ایک ہفتہ قبل شروع ہونے والی حالیہ جھڑپوں خونریزی کے واقعات نے پورے ضلع کو اپنی لپٹ میں لے لیا ہے جہاں ہر طرف خوف اور وحشت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔