ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کا آگاہی سیمینار

161

خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے بین الاقوامی دن کے موقع پرہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن پاکستان کی جانب سے کراچی پریس کلب میں ’’ سرحدوں سے ماورا عورت مزاحمت (بٹر فلائی سسٹرز سے لے کر پاکستان تک سیاسی کارکنوں کی مزاحمت)‘‘ کے عنوان سے سیمینار منعقد ہوا جس کی صدارت اسد اقبال بٹ، چیئرپرسن ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان نے کی۔ سیمینار میں سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے متحرک کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

سیمینار سے خطاب کرنے والوں میں مہناز رحمان(معروف صحافی و سماجی کارکن) ، سمی بلوچ( بلوچ یک جہتی کونسل) ، زہرا خان ( جنرل سیکرٹری ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن)، سورٹھ لوہار (مسنگ پرسنز بازیابی تحریک ) ، ڈاکٹر اصغر علی دشتی ( ترقی پسند دانش ور ، استاد شعبہ بین الاقوامی تعلقات اردو یونی ورسٹی)، ناصر منصور (جنرل سیکرٹری نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان) ، سعید سربازی ( صدر کراچی پریس کلب ) اور اسد اقبال بٹ (چیئرپرسن ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان ) شامل تھے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے لاطینی امریکا کے ملک ڈومینکن جمہوریہ کی ان تین عظیم انقلابی بہنوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا جن کی مزاحمتی جدوجہد کی یاد میں 25 نومبر کا دن دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ مقررین نے بتایا کہ جمہوری اور انسانی حقوق کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ایک آمر کے خلاف اپنی جدوجہد کا آغاز کیا جنہیں تاریخ میں بٹرفلائی سسٹرز کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ تینوں بہنیں( میلیے پیٹرا میرابل ، منروا میرابل ، ماریہ ٹیریسا میرابل) جمہوری آزادی ، تبدیلی اور عورتوں کی خود مختاری کی علامت بن کر ابھریں اور اپنی زندگی کے آخری سانس تک ایک فوجی آمر رافلو ٹرجلوم کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرتیں رہیں جس کے نتیجے میں ڈومینکن جمہوریہ کے عوام کو بل آخر 25 نومبر 1960 میں ایک فوجی آمر کے ظلم سے نجات ملی۔
1999 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ان عظیم مزاحمت کار بہنوں کی جدوجہد کے اعزاز کے طور پر 25 نومبر کو پوری دنیامیں عورتوں کے خلاف تمام قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔مقررین نے کیا کہ آج سے چھ دہائیوں پہلے جس ریاستی جبر ، غیر جمہوری آمرانہ طرز حکومت اور عورت دشمن سماجی رویوں کے خلاف بٹر فلائی سسٹرز نے جدوجہد کی تھی وہ آج بھی دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی جاری ہے۔

پاکستان میں شہریوں کو جبری لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، سیاسی کارکنوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ، جمہوری آزادیوں اور اظہار رائے پر قدغن ہے۔ فیکٹریوں کارخانوں کو محنت کشوں کے لیے قید خانوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے، مزدور عورتیں کارگاہوں میں بدترین جنسی ہراسگی کا شکار ہیں۔ عورتیں آج بھی سیاسی ، سماجی اور معاشی میدان میں بدترین صنفی تفریق کا سامنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو اس عظیم دن کی اہمیت کے بارے میں آگاہی ہی نہیں کہ یہ دن جمہوری اقدار کی بحالی اور انسانی حقوق کی جدوجہد کا دن اور عورتوں کے حقوق جمہوری اور انسانی حقوق کی اساس ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان حکومت نے کام کی جگہوں پر ہراسگی کے حوالے سے 2010 میں ایک بل بھی منظور کیا گیا جس کے تحت خواتین اپنی شکایات وفاقی و صوبائی محتسب کے پاس درج کروا سکتی ہیں مگر سماجی رویوں ، سوچ اور عدم انصاف کے باعث کیسز طول پکڑ جاتے ہیں اور انصاف کا حصول تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔آج صورت حال یہ ہے کہ عورتوں پر تشدد کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا چھٹا خطرناک ترین ملک ہے جب کہ 85 فی صد عورتیں نے کارگاہوں میں جنسی ہراسگی کا سامنا کیا ، 90 فی صد گھریلو کام کرنے والی عورتیں جنسی ہراسگی کا شکار ہوئیں، 40 فی صد عورتوں کو ڈیجیٹل ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا اور 14 سے 49 سال عمر کی 28 فی صد عورتیں جسمانی تشدد اور 6 فی صد جنسی زیادتی کا شکار ہوئیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 8 ہزار سے زائد ایسے خاندان ہیں جن کے پیارے یا تو جبری طور پر لاپتہ کر دیے گئے ہیں اور سیکڑوں خاندانوں کے افراد ریاستی حراست یا سرعام ہلاک کیے گئے ہیں۔ ان سانحات سے متاثرہ خاندانوں کی ہزاروں عورتیں اذیت ناک زندگی گزار رہی ہیں۔

مقررین نے مزید کہا کہ پاکستان میں جاری سماجی ، سیاسی و صنفی جبر کے خلاف عورتوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ملک میں جمہوری اقدار کے فروغ اور سماجی و صنفی ناہمواری کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح ، بے نظیر بھٹو ، عاصمہ جہانگیر، کلثوم نواز ، محترمہ کنیز فاطمہ ، طاہرہ مظہر علی جیسی خواتین کی جدوجہد کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ آج بھی جبر کے اس جاری غیر جمہوری و غیرانسانی ماحول کے خلاف ایک بڑی عوامی مزاحمت ڈاکٹر مہہ رنگ بلوچ ، سمی بلوچ، سورٹھ لوہار ، سندھو نواز گھانگھرو، زہرا خان جیسی ہزاروں بہادر عورتوں کی جبر کی قوتوں کو چیلنج کر رہی ہے۔

سیمینار میں مطالبہ کیا گیا کہ تمام جبری لاپتہ شہریوں کو فی الفور رہا کیا جائے۔
۱۔ تمام جمہوری آزادیاں بشمول اظہار رائے کی آزادی بحال کیا جائے۔
۲۔ عورتوں کے خلاف تمام امتیازی قوانین ختم کیے جائیں۔
۳۔ پاکستان آئی ایل او کنونشن 190 کی توثیق کرے اور عورتوں کے خلاف جنسی ، جسمانی اور ہر نوع کے پرتشدد رویوں کے خاتمہ کے لیے ٹھوس قانونی اقدامات کیے جائیں۔
۴۔ کام کی جگہوں پر اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی الفور بنائی جائے۔