بھارتی سپریم کورٹ نے ریاست اتر پردیش کے ضلع سنبھل کی شاہی مسجد کا سروے کرانے کے معاملہ میں مداخلت کرتے ہوئے مقامی عدالت کو کیس کی مزید سماعت سے روک دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے مسلمانوں درخواست گزاروں کو معاملے کے حوالے سے ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہاکہ جب تک الٰہ آباد ہائی کورٹ کوئی حکم جاری نہیں کرتی، نچلی عدالت کیس کی سماعت نہ کرے۔ سپریم کورٹ نے شاہی جامع مسجد انتظامی کمیٹی سے کہا کہ وہ نچلی عدالت کے حکم کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کرے۔ شاہی جامع مسجد مینجمنٹ کمیٹی نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں سروے کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ درخواست میں نچلی عدالت کے سروے آرڈر کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جسے عدالت عظمیٰ نے قبول کر لیا ۔ اس سے قبل اتوار کے روز ہونے والے تصادم کے دوران پولیس نے مسلمان مظاہرین پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا تھا،جس کے بعد ابتدائی طور پر 2 ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں جبکہ دیگر 4افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے تھے ۔تصادم کے بعد 25 افراد کو حراست میں بھی لیا گیاتھا۔سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد عدالت اس معاملے پر اب 6جنوری کو سماعت کرے گی۔چیف جسٹس سنجیو کھنا اور جسٹس پی وی سنجے کمار کے بینچ نے کہا کہہم اس معاملے میں سردست کوئی رائے دینا نہیں چاہتے۔ ہمیں اس معاملے میں غیر جانب دار رہنا ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکنوں اور قانونی ماہرین کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر مسجدوں پر مندر ہونے کے دعوؤں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ملک میں نیا جھگڑا شروع ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن ایڈووکیٹ بھانو پرتاپ سنگھ نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اس معاملے میں حتمی فیصلہ سنا دینا چاہیے تھا اور ہائی کورٹ جانے کی ہدایت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ عدالتیں مسجدوں پر دعوؤں سے متعلق درخواستوں کو قبول کر کے جو کارروائی کر رہی ہیں وہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ 1991 ء کے عبادت گاہ قانون کی موجودگی میں کسی بھی مسجد یا عبادت گاہ کے سلسلے میں ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ اس قانون میں بہت واضح طور پر کہا گیا ہے کہ 1947 ء سے پہلے کی عبادت گاہوں میں کوئی سروے نہیں ہو گا، کوئی جانچ نہیں ہو گی اور ان کو بدلا نہیں جا سکے گا۔ سنبھل کی مقامی عدالت کی جانب سے شاہی جامع مسجد کے سروے کا حکم دینا ہو یا اجمیر کی عدالت کا خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر مندر ہونے کے دعوے کی درخواست کا منظور کرنا اور اس پر نوٹس جاری کرنا ہو ، دونوں ہی غلط اور غیر قانونی ہیں۔ انہوں نے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی جانب سے گیان واپی مسجد کے سروے کی اجازت دینے کے فیصلے کو بھی غلط قرار دیا۔
بھارت کی سنبھل مسجد کا تنازع کیاہے ؟
19 نومبر کو سپریم کورٹ کے وکیل وشنو شنکر جین اور کلکی دیوی مندر سنبھل کے مہنت رشی راج گری سمیت 8افراد نے سول جج آدتیہ سنگھ کی عدالت میں ایک درخواست دائر کر کے جامع مسجد کے مندر ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ سول جج نے 3گھنٹے کی سماعت کے بعد ایڈووکیٹ کمشنر مقرر کر کے مسجد کے سروے کا حکم دیا اور 29 نومبر کو رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی۔ سہ پہر ساڑھے 3بجے حکم دیا گیا اور کمشنر نے اسی روز شام 7بجے جا کر سروے کیا۔ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے مبینہ عجلت پر سوال بھی اٹھایا ۔ سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی نے پیر کے روز ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ فریقین کا موقف سنے بغیر غیر حساسیت سے کی گئی کارروائی نے ماحول کو خراب کیا۔ انہوں نے ہلاکتوں کے لیے حکومت کو ذمے دار ٹھہرایا اور متاثرین کے اہل خانہ سے تعزیت کی۔بی جے پی نے الزام عائد کیا ہے کہ اپوزیشن پارلیمانی انتخابات میں شکست کے بعد سے ماحول خراب کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جو لوگ عدالتی حکم سے متفق نہیں ہیں وہ عدالت کا رخ کر سکتے ہیں۔
انتہاپسند ہندوؤں کا دعویٰ
انتہاپسند ہندودرخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ اس مقام پر بھگوان کلکی کا مندر تھا جسے مغل حکمراں بابر نے 1526 ء میں منہدم کر دیا اور ان کے سپہ سالار ہندو بیگ نے 1528-1527 میں وہاں مسجد کی تعمیر کی۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اسی مقام پر بھگوان کلکی کا اوتار ہو گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے مطابق وہاں قدیم زمانے میں بھگوان وشنو اور بھگوان شیو کی ایک نشانی ملی تھی جس کی وجہ سے اسے ہری ہر مندر کہا جاتا ہے۔ اس مندر کی تعمیر کائنات کے آغاز پر بھگوان وشو کرما نے کی تھی۔ ان کا یہ بھی استدلال ہے کہ قدیم آثار کے تحفظ کے قانون 1904 ء کے تحت اس مسجد کو 22 دسمبر 1920 ء کو محفوظ یادگار کے طور پر شناخت کیا گیا تھا۔ محکمہ آثارِ قدیمہ کی محفوظ یادگاروں کی فہرست میں اسے قومی اہمیت کی حامل عمارت قرار دیا گیا ہے۔ لیکن محکمہ آثار قدیمہ اس پر اپنا کنٹرول رکھنے میں ناکام ہے اور مسجد کمیٹی نے اس پر قبضہ کر رکھا ہے۔ محفوظ یادگار کے قانون کے تحت اس میں ہر شخص کو داخل ہونے کا حق ہے۔ تمام لوگوں کو مسجد کے اندر جانے کی اجازت دی جائے اور مسلمانوں کو دیگر مذاہب کے لوگوں کے داخل ہونے سے روکنے کو منع کیا جائے۔
مسلمانوں کا موقف
مقامی مسلمان ہندوؤں کے دعوے کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔ وہ مسجد کے اندر نصب ایک کتبے کی نشان دہی کرتے ہیں جس کے مطابق مسجد کو بابر کے زمانے میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس پر 933 ء درج ہے جو کہ انگریزی سنہ کے حساب سے 1526 ء ہوتا ہے۔ لیکن درخواست گزاروںکا کہنا ہے کہ یہ کتبہ فرضی ہے اور اس کی دوسری جانب سنسکرت زبان میں اس کے مندر ہونے کے بارے میں لکھا ہے۔ عدالت میں مسجد کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ ظفر علی کا کہنا ہے کہ 19 نومبر کو 2گھنٹے میں سروے مکمل ہو گیا تھا۔ کوئی بھی قابل اعتراض چیز نہیں پائی گئی۔ کوئی ایسی چیز ملی ہی نہیں جس سے شک بھی پیدا ہو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ شاہی جامع مسجد واقعی ایک مسجد ہے مندر نہیں۔ مسلم وکلا کے مطابق عدالت نے انھیں اپنا موقف رکھنے کا موقع دیے بغیر سروے کا حکم دے دیا، کسی بھی ناخوش گوار واقعے کو روکنے کے لیے امن کمیٹی کی میٹنگ کے انعقاد کا بھی موقع نہیں دیاگیا۔ حکام نے مسجد کی چار دیواری اور مقفل اسٹور روم کو کھلوا کر اس کا بھی سروے کیا گیا۔ مسجد کے ذمے داروں نے سروے کمشنر کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔
ہندوؤں کا وکیل وشنو شنکر جین ایڈووکیٹ کون ہے؟
وشنو شنکر جین لکھنو کے رہائشی اور سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔ وہ اور ان کے والد ہری شنکر جین ایڈووکیٹ ہندو مذہب سے متعلق قانونی معاملات کے معروف چہرے ہیں۔ باپ بیٹے کی جوڑی عدالتوں میں ہندو فریقوں کا موقف رکھتی ہے۔ دونوں اب تک مندر مسجد تنازع سے متعلق 200 کیس لڑ چکے ہیں۔دی ہندوستان کے مطابق وہ بابری مسجد، گیان واپی مسجد، شاہی عیدگاہ متھرا، قطب مینار اور تاج محل سے متعلق تنازعات میں ہندو فریقوں کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ وشنو شنکر جین 2016 ء سے سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ ہیں۔
سنبھل کی جامع مسجد کا بابری مسجد سے موازنہ
انسانی حقوق کی تنظیموں اور مسلمانوں کو اندیشہ ہے کہ سنبھل کی شاہی جامع مسجد کو بھی ایودھیا کی بابری مسجد، وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ کے تنازعات کی طرح متنازع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جمعیت علمائے ہند کے صدر اور سابق رکن پارلیمان مولانا محمود مدنی نے ایک بیان میں کہا کہ بابری مسجد کے انہدام کا زخم ابھی تازہ ہے۔ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے ہی 1991 ء میں عبادت گاہ قانون منظور کیا گیا تھا۔ان کے مطابق سپریم کورٹ نے اپنے ایودھیا فیصلے میں بھی اس قانون کی اہمیت کا ذکر کیا ہے۔ اس کے باوجود قرونِ وسطیٰ میں تعمیر کی گئی مساجد کے خلاف پٹیشن داخل کی جا رہی ہیں جو کہ تشویش ناک ہے۔ رکن پارلیمان اسد الدین اویسی کا کہنا ہے کہ بابری مسجد تنازع میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہندوتوا نواز عناصر کو پورے ملک میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کا حوصلہ ملا ہے۔ ان کے مطابق جس طرح مسلمانوں کا موقف سنے بغیر پوجا کرنے کے لیے بابری مسجد کا قفل کھول دیا گیا تھا اسی طرح سنبھل میں جس روز درخواست داخل کی گئی اسی روز سماعت ہوئی اور اسی روز سروے ہو گیا،جو کہ یہ انتہائی تشویش ناک ہے۔