حل صرف جماعت اسلامی

374

قارئین جب میرے کالم کی اشاعت کے بعد مجھے فون کرتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب آپ جو کچھ لکھتے ہیں وہ ہمارے دل کی آواز ہوتی ہے آپ مہنگائی، بیروزگاری پر خوب لکھتے ہیں، اسلامی معاشرے کی تشکیل پر بھی تحریر کریں اور لوگوں کا ذہن بنائیں کہ وہ ایک بار جماعت اسلامی کی مرکز میں حکومت بنانے کی کوشش کریں۔ اسلم صاحب جن کا تعلق اورنگی ٹائون سے ہے اور جماعت اسلامی کے فعال کارکن بھی ہیں تو میں نے کہا کہ آپ اگر باقاعدہ میرے کالموں کا مطالعہ کرتے تو آپ کو پتا چل جاتا کہ میں کب سے عوام کی ذہن سازی کررہا ہوں۔ اپنے ہر کالم میں جماعت اسلامی کی کارکردگی تحریر کرتا ہوں ہمارے ملک میں کیا تمام ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام چل رہا ہے جس دن جماعت اسلامی کو اقتدار ملے گا اس دن یہ امید آپ کی رنگ لے کر آسکتی ہے کیونکہ ہمارے ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جو پہلے اسلام کی بات کرتی ہے جس دن ہمارے ملک کی اسٹیبلشمنٹ میں اسلام پسند لوگ آگئے تو اسلامی معاشرے کی تشکیل ممکن ہوگی۔ ہم تو آج بھی سودی نظام میں جکرے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کا سود پر سود ادا کررہے ہیں تو ملک میں برکت کہا سے آئے گی۔ بڑے بڑے اسلامی ممالک میں بھی یہی نظام چل رہا ہے، آپ نے تو پیپلز پارٹی کی بدمعاشی بلدیاتی انتخابات میں دیکھ ہی لی کراچی والوں نے جماعت اسلامی کے حق میں فیصلہ دیا تھا مگر کیا ہوا قومی الیکشن کا حال بھی سامنے ہے۔ فارم 45 والا قیدی نمبر 804 بنادیا گیا اور ملک و قوم کو تباہ کرنے والوں کو فارم 47 کے نام پر حکومت دے دی گئی۔ 24 نومبر کو حکومت کا خوف دیکھنے والا تھا۔

میری تحریک ابن آدم کے سرپرست خضر حیات کہتے ہیں یہ کیا مذاق ہے ہمارے ملک میں ڈاکٹر صاحب۔ روڈ بلاک، ہائی وے بلاک، انٹرنیٹ بلاک، بنیادی حقوق بلاک، انسانی حقوق بلاک، لیڈروں کی سوچ و فکر بلاک۔ کیا اس کو آزادی کہتے ہیں قوم صرف کتابوں میں آزاد ہے باقی تو سب کے سامنے ہے۔ خضر حیات صاحب کی بات بالکل ٹھیک ہے مگر اس کام کے لیے بنگلا دیش کی قوم سے سبق لینا ہوگا۔ اس وقت تو حکومت بری طرح ناکام نظر آتی ہے۔ سندھ حکومت اور اس کے ادارے عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام، ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ، پرچی آنا دوبارہ شروع ہوچکی ہیں، انسانی حقوق کی علمبردار صہبا شیخ پراچہ نے بتایا کہ اُن کے علاقے کے ایک تاجر کو بھتے کی پرچی موصول ہوئی ہے، رقم ادا نہ کرنے کی صورت میں جانی نقصان کی دھمکی دی ہے۔ ماضی میں بھی کراچی کو عوام کی لاشوں کا تحفہ مل چکا ہے۔ اللہ اللہ کرکے جان چھوٹی تھی مگر یہ نااہل سندھ حکومت نے تمام تھانوں میں اندرون سندھ سے پولیس لا کر بٹھادی ہے جو کراچی میں مال بنانے آئے ہیں۔ لاکھوں روپے ہفتہ کی ہر تھانے کی آمدنی ہے۔ ہر ایس ایچ او کروڑ پتی سے کم نہیں۔ رائو انوار تو ارب پتی ہے، ممتاز برنی مرحوم میرے اچھے دوست تھے کامیاب پولیس افسر تھے تعلقات کے بادشاہ تھے وہ بھی کروڑ پتی تھے۔ میری سمجھ سے باہر ہے گریڈ 11 سے لے کر گریڈ 16 کی ایف آئی اے سے انکوائری کیوں نہیں کروائی جاتی اور گریڈ 17 سے گریڈ 21 تک کی نیب سے انکوائری کروائی جائے مگر کوئی یہ کام کیوں کرے گا، حکومت خود ایسے افراد کو لے کر آتی ہے جو ان کو باقاعدگی سے حصہ پہنچاتے ہیں۔

ٹوٹی ہوئی کراچی کی سڑکیں انتظار کررہی ہیں کہ کب ان کی حالت زار پر سندھ حکومت رحم آئے گا، کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوتا تھا جہاں رات کو بھی دن کا سما ہوتا تھا آج نااہل سندھ حکومت اور کے الیکٹرک کی مہربانی سے اب یہ شہر اندھیروں میں ڈوب چکا ہے، ایک اکیلا حافظ نعیم الرحمن کس کس محاذ پر لڑے گا؟ عوام کا اصل درد تو جماعت اسلامی ہی محسوس کرتی ہے۔ عوام کی خاطر روڈو پر کون آتا ہے؟ جی صرف جماعت اسلامی۔ آج ملک میں ایک بار پھر فرقہ واریت کو ہوا دی جارہی ہے، ادارہ نور حق میں منعقد اجلاس میں کہا گیا۔ پارہ چنار میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس اور دکھ کا اظہار کیا گیا اسے منظم سازش قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ ملک دشمنوں کی جانب سے عوام کو تقسیم اور ملک کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بعض ملک دشمن عناصر اور قوتیں پارا چنار کے واقعات کو مذہبی رنگ دے کر اتحاد امت کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔ اجلاس میں اسرائیلی دہشت گردی کی مذمت کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی پر بھی زور دیا گیا۔ ادارہ نور حق نے ہمیشہ بھائی چارگی کے فروغ کا کام کیا ہے۔

ایک خط جو نظر سے گزرا سوشل میڈیا پر جس کا عنوان تھا مارشل لا یا ایمرجنسی کونسل یہ خط عبدالقیوم خان کنڈی کا ہے وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کی اندرونی اور بین الاقوامی صورت حال ایسی ہے کہ بہت سے لوگ جنرل عاصم منیر کو مشورے دے رہے ہیں کہ یہ ہائبرڈ حکومت کو ہٹا کر اب براہ راست حکمرانی بہتر ہے۔ جس طرح 24 نومبر کو پی ٹی آئی کا احتجاج آگے بڑھ رہا ہے اس میں بھی مجھے مارشل لا کی بُو آتی ہے۔ مارشل لا نے 1981ء میں بھی ریاست تحلیل کی تھی اور آج بھی اس کا یہ ہی نتیجہ ہوگا۔ ایک شہری کی حیثیت سے میں صرف یہی کرسکتا ہوں کہ آپ کو اپنی سمجھ کے مطابق حالات سمجھا سکوں اور صحیح راستہ کیا ہے اس پر اپنی تجویز دوں اس کے بعد ماننا یا نہ ماننا میری ذمے داری نہیں ہے، میں پچھلے چار پانچ سال میں ہر موڑ پر تجویز دیتا رہا ہوں جب عمران خان کی نااہل اور نالائق حکومت تھی تو آپ کو کہا کہ قومی سیاسی مذاکرات کریں اور نظام کو بہتر کریں ہر سیاسی پارٹی اور دانشور کے سامنے ہاتھ جوڑ کر درخواست کی کہ اس کے بعد پی ڈی ایم کی پارٹیوں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کی کہ عدم اعتماد نہ لائیں بلکہ ہر پارٹی اپنا میثاق پیش کرے اور اس پر قومی مذاکرات کی میز پر بات ہو۔ اس کے بعد آپ کو سمجھایا کہ جعلی اور فراڈ الیکشن کرانے سے حالات مزید خراب ہوں گے۔ کئی ویڈیو بنا کر قوم سے ہاتھ جوڑ کر کہا اس جعلی الیکشن کا بائیکاٹ کردیں جیسا تیونس کے عوام نے کیا، اس وقت یہ بھی سمجھایا تھا آپ کا ووٹ گنا نہیں جائے گا جعلی الیکشن کے فوری بعد آپ کو کہا ایک ایمرجنسی کونسل بنائیں اور جعلی حکومت نہ بنائیں مگر کوئی پارٹی نہیں مانی، جب 26 ویں آئینی ترمیم پر کام شروع کیا اس وقت پھر سمجھایا نہ کریں اسے کوئی قبول نہیں کرے گا، مگر کوئی نہ مانا آج ریاست کے تحلیل ہونے کا عمل تیز ہوچکا ہے کرم اور پارا چنار قتل و غارت ہوا وہ ریاست کے گرنے کی اہم نشانی ہے جو ریاست قاتلوں کے ساتھ مذاکرات کرے وہ اپنا وجود کھوچکی ہے۔

آج ایک دفعہ پھر ہاتھ جوڑ کر درخواست کررہا ہوں ریاست کی مکمل تحلیل کو بچانا ہے تو فوراً ایک ایمرجنسی کونسل بنائی جائے اس میں تمام مکاتب فکر کے لوگ ہوں ہمارا اس میز پر ہونا لازمی ہے ورنہ قبول نہیں۔ اقتدار کانٹوں کا بستر ہے مگر اگر تجویز دے رہا ہوں تو خود بھی ان کانٹوں پر چلنا اخلاقی ذمے داری ہے، مارشل لا حل نہیں ہے جس کی اس وقت تیاری ہے حل سویلین ایمرجنسی کونسل ہے جس کا کام فوری طور پر نظام کی اصلاح ہو۔ پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علما اسلام اور عدلیہ یہ سب موجودہ حالات کے ذمے دار ہیں اور ان سب کو غلطیاں قبول کرنا ہوں گی۔ تجویز دے رہا ہوں ماننا یا نہ ماننا آپ کی ذمے داری ہے میری نہیں۔

یہ خط ہے عبدالقیوم خان کنڈی کا مگر ملک کی سطح پر ان کی یہ تجویز نامنظور سمجھی جارہی ہے، یہ حال جو عبدالقیوم خان کنڈی نے بتایا ہے یہ سراسر جمہوری روایات اور آئین پاکستان کے منافی ہے اس کا واحد حل آزاد و شفاف الیکشن بغیر اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کرکے جس کو عوام پسند کرتی ہو اس کو منتقل کردیا جائے جعلی حکومت نے اب تک عوام کی بھلائی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ آئی پی پیز آج بھی غریب عوام کا خون چوس رہی ہیں۔ نیپرا نے بجلی صارفین کو دسمبر کے بلوں میں 1.0 روپے فی یونٹ کے حساب سے ری فنڈ دینے کا اشارہ کیا ہے۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی جنوری 2024ء سے نومبر 2024 تک کبھی 7 روپے سے لے کر 3 روپے تک فی یونٹ سے اربوں وصول کرنے کے بعد 1.0 روپے فی یونٹ ایک خوفناک مذاق نہیں تو اور کیا ہے میرا شیرجاگ رہا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن اگر اب دوبارہ نکلا تو یا تو حکومت رہے گی یا اس کو 10 روپے فی یونٹ بجلی دینے اعلان کرنا پڑے گا قوم کے پاس آخری آپشن جماعت اسلامی ہے جو عوام کو مسائل سے نکالنا جانتی ہے۔