سیاست کی تلخی اور اسلام آباد کی سیل بندی کے کڑوے پھل معیشت پر اثرات چھوڑے بغیر نہیں رہیں گے۔ خون ناحق جو بہا وہ روز محشر۔ کس کی آستین میں اپنا لہو تلاش کروائے گا اور سزاوار ٹھیرائے گا۔ قوم کا حجان ختم ہوگا یا بڑھے گا کوئی کیا بتائے مگر یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کی عمرانی تحریک پھر اسلام آباد پر چڑھائی اور دھرنا، مقاصد کے حصول میں ناکام ٹھیرا اور دھرا کا دھرا ہی نہیں رہ گیا بلکہ پھسلن کا شکار ہوگیا۔ اب تذکرے اور تبصرے ہیں کہ منہ کے بل تحریک انصاف گرے گی یا پھر سنبھل جائے گی اور وجود کو بچالے گی۔ ویسے بھی 24 نومبر کی تاریخ کا انتخاب اس حوالے سے کرکے کہ اس تاریخ کو حافظ عاصم منیر چیف آف آرمی بنے یہ بتایا گیا کہ لڑائی کا محور چیف صاحب کی صورت مقتدرہ ہے جو بات کرنے اور سننے کے لیے تیار نہیں شاید ایک مرتبہ پھر گود لے لے، ویسے یہ تحریک انتخاب میں دھاندلی سے دھاندلائی حکومت کے خلاف تھی مگر اس کا محور عمران خان کی رہائی تھا۔ اور یہ شخصیت کے گرد گھوم رہی تھی نظریہ کے گرد نہیں۔ سو اس کا یہ انجام ہی ہونا تھا۔
یہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان مقبولیت کی معراج پر ہیں، کیسے اور کیوں، کس کی بدولت یہ مابدولت بنے ہوئے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں مگر اس سے کیا ہوتا ہے۔ یہ دھرنا جو فارم 47 سے دھاندلی حکومت سازی کے خلاف تھا مگر وہ نتائج بھی نہ دے سکا جو 1977ء کے انتخابات جو ذوالفقار علی بھٹو نے کرائے اور مولانا جان محمد عباسی (مرحوم) جو لاڑکانہ سے بھٹو کے مقابل امیدوار تھے کو اغوا کرکے میدان صاف کرنے اور بلامقابلہ کامیاب ہونے اور جیتنے کے شوق سے لے کر کھلی ڈھلی دھاندلی کے ذریعے اقتدار کے مزے لوٹنے کے لیے حکومت کی طاقت کے زور پر کرائے تو پھر اس فسطائیت، دھاندلی، زور زبردستی کے خلاف قومی اتحاد کی قیادت نے تحریک چلائی تو اُس نے نظام مصطفی کے نظریہ کو بھٹو کی شخصیت کے مقابلے میں میدان میں لاکھڑا کیا، چشم فلک اور دنیا نے دیکھا کچھ لوگوں نے نظریہ اسلام پر ایسی بے مثال قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم کی کہ رہتی دنیا تک زندہ رہے گی۔ نظریہ اور شخصیت کی لڑائی جو حکومت اور عوام میں ہوئی شخصیت نے شکست کھائی۔ مگر جس نظریہ پر تحریک اُٹھی اس کا پیپر ورک تیار نہ تھا اور ملک مارشل لا کی گرفت میں آگیا اور ضیا الحق نے مہارت سے نظریہ اسلام کا علم اُٹھا کر قوم کے جذبات کو ٹھنڈا اور اقتدار کے استحکام کا سامان کیا۔
یہ بات بھی قابل الذکر ہے کہ اس مرتبہ معاملہ معرکہ آرائی کا کچھ یوں بھی الٹ رہا ہے کہ شخصیت عمران کے مقابلہ اتحاد پی ڈی ایم تھا جس کو تثلیث کی حکومت قرار دیا جاتا ہے۔ 1977ء کی قومی اتحاد کی تحریک آدھی کامیاب ٹھیری کہ ذوالفقار علی بھٹو سے قوم و ملک کو نجات مل گئی مگر نظریہ کے نفاذ میں مکمل ناکام ٹھیری کہ وہ جھانسے میں، لالچ میں آگئی اور کچھ قائدین اقتدار کی کرسی کے لیے اغیار تک کا طواف کرنے چل دیے اور نظام مصطفی کو بھول بیٹھے تو قدرت نے انہیں بھی بھول بھلیوں میں گم کردیا۔ اتحاد تتر بتر ہوگیا۔
قائداعظم محمد علی جناح نے ہندو مت اور انگریز حکمران برطانیہ کو شکست نظریہ کی بنیاد پر دی وہ نظریہ کلمہ طیبہ کا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ اس نظریہ سے پہلوتہی نے پاکستان کو ہر لحاظ سے شکست کردیا تو قومی اتحاد کیسے شکستہ نہ ہوتا یہ فطرت کا فیصلہ ہے کہ یہ نظریہ کے نفاذ تک میدان میں کیوں ڈٹا نہ رہا۔ بہرحال یہ بات تو 1977ء اور 2024ء میں ثابت ضرور ہوگئی کہ شخصیت چاہے کتنی بھاری بھرکم، مقبول کیوں نہ ہو اُس کی بنیاد پر تحریک نتیجہ خیز ہرگز نہیں ہوتی۔ نظریہ نے ہر دور میں اپنے آپ کو منوایا ہے اور کامیابی کی راہ دکھائی ہے۔ قرآن میں بھی آتا ہے جس نے کہا اللہ ہمارا ربّ ہے اور پھر اس پر ڈٹ کر کھڑے ہوئے اس پر فرشتہ ربّ (مدد) کے لیے نازل فرماتا ہے، نظریہ ہی ثابت قدم رکھتا ہے، شخصیت کا سحر چراغ سحری ہوتا ہے اور پھر جب دن روشن ہوتا ہے اور صاف نظر آنے لگتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ خود دیکھا اور سنا وہ فسانہ تھا۔ نہ ہمالیہ رویا نہ ہی جیل کا تالہ توڑا۔ بس اک تماشا ہوا جو مقصد ہوا۔ رہی سہی ہوا بھی اکھڑ گئی، اب متاثرین دھرنا کی حالت یہ ہے کہ پتا کھڑکا تو دل میرا دھڑکا۔ اب کیا ہوگا ملک یوں ہی سیاست کے جوہڑ میں غوطہ کھاتا رہے گا؟ مایوسی شریعت میں گناہ بتائی گئی ہے تحریکوں نے ناامید کیا ہے مگر ربّ کی رحمت سے مایوس اُس کے غلام ہرگز نہیں وہ ربّ کی رضا پر راضی ہیں دھرنا اسلام کی تاریخ کا اعلان 14 نومبر کو کیا گیا اور 24 تاریخ کے دھرنے کی خوب میڈیا پر دھول اڑائی تو نتائج کیا نکلے، کسی نے برجستہ کہا کہ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا۔ جو چیرا تو نکلا وہ گاجر کا چھلکا۔ فائنل کال وقتی ابال ثابت ہوگئی کچھ احباب شخصیت پرستی کو بت پرستی قرار دیتے ہیں۔