غزہ میں جاری طویل معرکہ نے انسانیت کو زندگی کی حقیقت سے آگاہ کردیا ہے کہ زندگی کا حقیقی مقصد خالق کائنات کی بندگی میں زندگی بسر کرنا ہے نہ کہ اس کے جھمیلوں میں الجھ کر اللہ ربّ العزت کی نافرنانی مول لینا ہے۔ اس معرکہ نے باطل کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کردیا ہے، جو حقوق انسانی کی آڑ میں انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہوئے تھا۔ اہل غزہ کی ثابت قدمی، استقامت اور اپنے ربّ کے ساتھ تعلق نے پورے عالم کو حیرت میں ڈال دیا ہے، جس کے نتیجے میں آج کے انسان نے اپنے مقصد حیات کو ازسر نو مرتب کیا ہے، اور دین اسلام کی طرف رجوع کرنے لگا ہے۔ معرکہ طوفان اقصیٰ نے امت مسلمہ کو بھی خواب غفلت سے بیدار کرتے ہوئے اپنے دین سے رشتہ مضبوط کرنے کا درس دیا ہے۔
مظلوم غزاویوں نے اپنے ایمان اور جرأت سے آج کے نوجوانوں کو بہت متاثر کیا ہے، ان کی عزیمت اور شہادت کی تمنا نے جذبہ جہاد اور شوق شہادت کو تازگی بخشی ہے، اور فکری طور مسلمانوں میں انفاق فی سبیل للہ میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ہر شخص اپنی بساط سے بڑھ اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے کوشاں ہے۔ ان میں سے ایک ترک نوجوان اقبال غموش بھی ہیں جنہوں نے اپنی جمع پونجی اہل غزہ کے نام کردی۔
الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے اقبال غموش نے کہا: میری تین بیٹیاں ہیں، اور تعمیرات کے شعبہ سے وابستہ ہوں، ہم اپنے گھروں میں بڑے آرام کی زندگی بسر کررہے ہیں، اللہ کی عبادت میں مشغول ہیں، لیکن اہل غزہ بھوک وپیاس سے تڑپ رہے ہیں۔ وہ اللہ ربّ العزت سے ہماری خاموشی پر شکوہ کریں گے۔ دوسری طرف ان کی ثابت قدمی بھی بے نظیر ہے کہ ان المناک حالات میں بھی مسمار شدہ عمارتوں پر اپنے ربّ کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے اسی سے لو لگائے ہوئے ہیں۔ بقول اقبال
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
ترک نوجوان کا جو ش وجذبہ قابل دید ہے، اہل غزہ کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہوئے امت کو یہ پیغام دیا کہ اہل غزہ مسلمانوں کو حصہ ہے اور آج ان کا حصہ المناک زندگی بسر کررہا ہے اور امت مسلمہ اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔
اقبال غموش نے غزاویوں کی مدد کے لیے اپنے تمام شیئرز جن کی مالیت 92 ہزار لیرہ (736000 روپے، 2700 ڈالر) ہے، غزہ کے لیے وقف کردیے، اور اس امر کا اظہار کیا کہ ہم اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا سلسلہ جاری رکھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان شیئرز کو جمع کرکے میں مستقبل کی منصوبہ بندی کی ہوئی تھی اور بہت خواب دیکھے ہوئے تھے، لیکن غزہ کی المناک صورتحال کی وجہ سے تمام شیئرز کو اللہ کے راستے میں خرچ کردیا ہے، اور یہاں خرچ کرکے میں نے آخرت میں شیئرز خرید لیے ہیں۔ مزید یہ کہ اللہ نے مجھے عقل وصلاحیتوں سے نواز ہے میں ان کو استعمال کرتے ہوئے مزید مال حاصل کرسکتا ہوں۔
حقیقت یہ کہ حقیقی ایمان بندہ مؤمن میں یہی جذبہ پروان چڑھاتا ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ سب اللہ کی ملکیت ہے، اور آخرت میں بھی وہی چیز کام آئی گی جسے ہم نے اللہ کے بتائے طریقے کے مطابق استعما ل کیا ہوگا، اسی طرح ایمان ہمارے اندر یہ فکر پروان چڑھاتا ہے کہ ہم نے ایک امت بن کر زندگی بسر کرنی ہے، فرقہ پرستی، مسلک پرستی اس امت کے زہر قاتل ہے۔ ترک نوجوان نے مزید کہا کہ: ہم سب کے لیے یہ افسوس کی بات ہے کہ غزہ کی شاہراہوں پر لوگ بھوک اور پیاس سے ٹرپ رہے ہوں!
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معرکے نے عقل وبصیرت رکھنے والوں کو اپنے ربّ کے قریب کردیا ہے اور جس طریقے سے اہل غزہ اپنے ثابت قدمی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کررہے ہیں، ان کی اس ثابت قدمی نے ا ن لوگوں اپنی فکر کو درست کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اقبال غموش کے ساتھ جناب جنکیز کورتان جو ترکی میں ایک ویلفیئر ٹرسٹ کے صدر تھے کہنے لگے کہ اس نوجوان کی مانند کافی لوگ اپنے مال اور دیگر اشیاء کے توسط سے اہل غزہ کی مدد کررہے ہیں۔ حال ہی میں ایک شخص جو کرایہ پر رہتا تھا، طویل عرصہ بعد اس نے اپنا گھر تعمیر کیا، جیسے ہی گھر تعمیر ہوا تو یہ جنگ شروع ہوگئی، اس شخص نے اپنا گھر بیچ کر اس کی مالیت اہل غزہ کے لیے وقف کردی۔
جن حالات میں اہل غزہ زندگی بسر کرر ہے ہیں اس سے سب واقف ہیں، اس جنگ کے بعد پورا عالم اسرائیل کی حقیقت جان چکا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ مل کر فلسطین میں نسل کشی کررہا ہے، اور اس کی بہادری صرف یہی ہے کہ اس نے ان پر ہزاروں ٹن بارود برسا کر 90 فی صد غزہ کو تبادہ وبرباد کردیا ہے، 44 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کردیا جبکہ ہزاروں کی تعداد میں عمارتوں کے ملبے تلے دفن ہوچکے ہیں۔ ہزاروں افراد شدید زخمی ہیں۔ اس نے اپنی وحشت کا اظہار کرتے ہوئے وہاں 962 سے زائد مساجد، 36 سے زائد کنیسے، 470 سے زائد مدارس وجامعات، 276 سے زائد اسپتال، 205 سے زائد حکومتی عمارتیں، 430 سے زائد عمارتوں کو تہس نہس کردیا ہے۔ لیکن عصر حاضر کے جدید اسلحہ سے لیس فوج مجاہدین سے اپنا ایک قیدی بھی نہیں چھڑا سکی ہے۔ اس سے بڑھ کر ذلت ورسوائی اور کیا ہوسکتی ہے کہ میدان جنگ میں موجود افراد سے مقابلہ کرنے کے بجائے پرامن شہریوں پر اپنا غصہ نکال رہے ہیں۔ یہ اس امر کا صریح ثبوت ہے کہ ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اسرائیل اپنے اہداف ومقاصد کے حصول میں ناکام ہوچکا ہے۔
ظلم وستم کے باوجود دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں، دوسری امت مسلمہ اجتماعی طور پر مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہے، انفرادی سطح پر جو کام کیے جاسکتے ہیں اس میں بھی کمزوری آچکی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان کے ایمان اور اپنے ربّ کے لیے قربانی دینے کے جذبے سے اپنے ایمان کی آبیاری کریں۔