شدید فضائی آلودگی توجہ کا مرکز کیوں نہیں بن رہی؟

150

پاکستان اور بھارت میں فضائی آلودگی ایک انتہائی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ ویسے تو خیر سال بھر ہی فضائی دُھویں اور دیگر زہر آلود اجزا سے بھری رہتی ہے تاہم موسمِ سرما کے دوران معاملات بہت زیادہ بگڑ جاتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت دونوں ملک کے پنجاب میں ہر سال دھویں اور دُھند کے ملاپ یعنی اسموگ سے کروڑوں افراد کے لیے ڈھنگ سے سانس لینا بھی دوبھر ہو جاتا ہے۔ یہ کیفیت ڈیڑھ دو ماہ تک رہتی ہے۔ بھارتی پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش، مدھی پردیش اور دہلی و گرد و نواح تک معاملات اس قدر خراب رہتے ہیں کہ معمر اور بیمار افراد کے لیے مشکلات ہلاکت خیز حد تک بڑھ جاتی ہیں۔ نومولود بھی ڈھنگ سے سانس نہیں لے پاتے۔

یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ اسموگ کے ہاتھوں انتہائی نوعیت کی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں، کروڑوں افراد کم و بیش دو ماہ تک انتہائی الجھنوں کا شکار رہتے ہیں مگر پھر بھی پاکستان اور بھارت میں اس حوالے سے خاطر خواہ سنجیدگی اپنائی نہیں جاتی، وہ اقدامات دور دور تک دکھائی نہیں دیتے جو دکھائی دینے چاہئیں۔

انڈیا ٹوڈے نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارت کے 10 بڑے شہروں میں مجموعی اموات میں سے 7 فیصد فضائی آلودگی کے باعث واقع ہوتی ہیں۔ دہلی اور چند دوسرے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی عمر بھی گھٹارہی ہے۔ اسپتالوں پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ یہی حال لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں کا بھی ہے۔

فضائی آلودگی کا معاملہ بھارت میں محض اسموگ تک محدود نہیں۔ سال بھر فضا مختلف غیر معیاری سرگرمیوں کے باعث آلودہ ہوتی رہتی ہے۔ عوام سمجھ نہیں پارہے کہ یہ سب کیا ہے۔ ہر طرف خرابی ہی خرابی دکھائی دے رہی ہے مگر کچھ نہیں کیا جارہا۔ یہ سب کچھ انتہائی درجے کی بے حِسی کا مظہر ہے۔

تصویر میں آپ کو جو منظر دکھائی دے ہے وہ برف باری کا نہیں بلکہ نئی دہلی سے گزرنے والے دریائے جمنا کا ہے۔ کارخانوں سے خارج کیا جانے والا فضلہ (کیمیکلز) دریا کے پانی میں شامل ہوکر انتہائی خطرناک جھاگ بناتا ہے اور اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دریا کے پانی میں پائی جانے والی یہ آلودگی فضا کو حد تک خراب کرتی ہوگی۔ پانی میں شامل ہونے والی کیمیکلز فضا میں گُھل کر ہوا کو مزید زہر آلود کرتے ہیں۔ فضا کو صاف کرکے صاف ہوا کے گزرنے کی راہ ہموار کرنے کے اقدامات مفقود ہیں۔