فیس بک پر دیکھا صہیونی درندے نے ایک بچی کے سینے میں 335 گولیں اُتار دیں۔ دوسری ویڈیو میں شیر خوار بچی دودھ کے لیے باپ کی گود میں بلک رہی ہے۔ بچے پیاس سے تڑپ رہے ہیں ایک تین سال کا بچہ ٹینکر کے نل سے ٹپکتے پانی کے قطروں سے پیاس بجھا رہا ہے۔ کھانے کے لیے ایک لمبی قطار کے اوپر سے میزائل گزر رہے ہیں بچے خوفزدہ ہوگئے کے ہم پر نہ گر جائیں۔ اور اب غزہ کا پانی مکمل بند ہوچکا ہے۔ بچے چند پانی کے قطرے مانگ رہے ہیں۔ کتنے ٹن سلفر اور فاسفورس بم غزہ پر برسائے جارہے ہیں۔ زہریلی گیس اور تابکاری کے اثرات سے دم گھٹنے سے بچے اور لوگ شہید ہو رہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کے فلسطین کی نسل کشی ہورہی ہے۔ غزہ رفح اور خان یونس کے بعد اب لبنان پر بمباری شروع کردی ہے روزانہ ان کی نسل کشی ہورہی ہے۔ 40 فی صد بچے شہید ہوچکے ہیں۔ فلسطین اور مسجد اقصیٰ پر اسرائیل اپنی غاصبانہ ریاست بنا کر بیٹھا ہے۔ فلسطین کے اسپتال، اسکول اور گھر سب تباہ برباد کر دیے بمباری اور فضائی حملوں سے۔ پوری دنیا میں امریکا اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں مگر ان کے کان پر جوں نہیں رینگتی کیونکہ 57 مسلم ممالک خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
7 اکتوبر سے اسرائیل وحشیانہ بمباری کر رہا ہے جس سے عارضی کیمپوں میں مقیم فلسطینیوں کی قوت سماعت کم ہورہی ہے یا کانوں میں انفیکشن اور سینے کی تکالیف اور دمے کی تکلیف میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ان کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال مسلم ممالک میں زیادہ کیا جا رہا ہے۔ اب اسرائیل مشرق وسطیٰ میں کر رہا ہے۔ کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری اب مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے کی جاتی۔ مغرب نے سال کے ہر دن کی اہمیت سے انہیں مختص کر دیا گیا ہے اس حوالے سے 30 نومبر کیمیائی ہتھیارروں سے متاثرین کا دن منایا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں۔ ہر ذی روح کو اللہ تعالیٰ نے اخلاقی و فطری طور پر امن اور محبت کے جذبے سر شار بنایا۔ سوائے جانوروں کو جو جنگل کے قانون کے مطابق جو جیتا وہی سکندر اپنی بقا کے لیے دوسروں کا شکار کرکے اپنا پیٹ بھرنا۔ طاقت ور کمزور کو لقمہ اجل بناتا ہے اور اس کے لیے ان کو دانت اور پنجوں جیسے ہتھیار دیے۔ انسانوں میں پہلے انسان یا نبی کے بچے ہابیل نے اپنے بھائی قابیل کا قتل کیا۔ خون گری کا سلسلہ شروع ہوا انسان میں حق وباطل کی جنگ شروع ہوئی۔ انسان نے بچاؤ کے لیے پتھر لکڑی اور ہڈیوں کے ہتھیار کا استعمال کیا۔ غاروں سے نکل کر آبادی شہر ملکوں کی تقسیم سے چاقو، تلواروں سے اپنا بچاؤ سیکھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ مختلف خطوں کے لوگوں نے آپس میں اپنے مفاد کے لیے اپنے نفس و خواہشات کی غلامی کے لیے ایک دوسرے سے جنگوں کے لیے مختلف ہتھیار ایجاد کیے۔
علم کیمیا کیا ہے؟ مادہ کے خواص اور رویہ کا سائنسی مطالعہ ہے یہ طبعی سائنس ہے جو عناصر پر مشتمل مادہ سے لیکر کمیائی مرکبات کا احاطہ ہے جو جوہر سالمہ اور آئون سے بنتے ہیں۔ ان کے عمل سے جو زہریلی گیسیں بنتی ہیں اور کیمیائی مادے سے بم بناتے ہیں۔ انہیں کیمیائی ہتھیار کہتے ہیں۔ یہ مغرب نے بنائے اپنے دشمن اور خود اپنوں کے خلاف استعمال کیے اس کے بعد اب مسلمانوں پر۔ سلفر اور فاسفورس کی دریافت کے بعد چاقو تلوار کا دور ختم ہوا اور بندوق کی بلٹ یعنی گولیاں توپ کی ایجاد کے بعد ٹینک میزائل یورینیم کی دریافت کے بعد ہائیڈروجن اور نائٹروجن بم کیمیائی ہتھیاروںکی ایجاد نے انسانیت کو خطرے میں ڈالا۔ پہلی جنگ عظیم میں سب سے پہلا کلورو پکرین نامی کیمیائی ہتھیار استعمال ہوا۔ 28 جولائی 1914 میں شروع ہوئی اور 11 نومبر 1918 میں ختم ہوئی اس میں برطانیہ اور اس کی ریاستیں امریکا، روس، فرانس، جرمنی اور اٹلی نے لڑی دوسری عالمی جنگ میں انسانی تاریخ کی بد ترین جنگ تھی جس میں لاتعداد لوگوں کا خون بہا۔
امریکا، روس، فرانس نے جرمنی، جاپان اور اٹلی کے خلاف لڑی۔ یہ ستمبر 1939 میں شروع ہوئی اور 1945 میں بند ہوئی اس میں امریکا نے ناگا ساگی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرائے۔ سیکڑوں لوگ مرے اور ہزاروں معزور ہوئے اور نومولود بچے کئی سال معزور پیدا ہوئے یہ ان کیمیائی ہتھیاروں کی تباہی تھی۔ انسانی لاشیں اور ان کے اعضاء جگہ جگہ بکھرے تھے جیسے آج پھر امریکا اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطین میں قتل عام کر رہا ہے۔ مسلمانوں پر اس نے پہلے بھی دنیا میں دہشت پھیلائی۔ ساری دنیا پر اب بھی یہی کر رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا کی دہشت بیٹھ گئی۔ پوری دنیا میں ہر ترقی یافتہ یا کیمیائی ٹیکنالوجی رکھنے والے مالک نے کیمیائی ہتھیار بنائے۔ عوام نے بھوک افلاس سہی مگر اپنے آپ کو ایٹمی طاقت بنایا۔ دنیا کی آٹھ دس نیوکلیئر پاورز میں سے ایک واحد مسلم ملک پاکستان بھی ہے۔ پھر میزائل کی دوڑ شروع ہوئی ڈرون بنے اب ایسے ہتھیار ہیں جو انسانوں کو مار کر جسم بھی پگھلا دیتے ہیں کہ پتا نہیں چلے گا کہ انسان یہاں رہتے تھے۔ ایسی جدید لیزر شعاع ہیں جو آبادی میں گھروں اور انسانوں کو پلک جھپکتے مٹی کا ڈھیر بنا دیں گی۔ اور ایک وقت ایسا آئے گا گھر خالی اور مکین منوں مٹی تلے دب کر اس جہان فانی غائب ہو جائیں گے۔
ان خطرات کے پیش نظر 30 نومبر کو کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ 1997 میں کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن کے الحاق کے بعد قائم کیا گیا۔ ساتھ ہی ان ہتھیاروں کی تیاری، ذخیرہ اندوزی اور استعمال پر پابندی ہے۔ اس دن دنیا بھر میں کیمیائی ہتھیاروں خاتمے کی کوششوں کو تیز کرنا ہے۔ اور ان کے استعمال کے مہلک خطرات کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے۔ اس دن کا مقصد کیمیائی ہتھیاروں کے خطرات اور ان کے استعمال کے نتیجے میں ہونے والی انسانی مصیبتوں کو یاد دلانا ہے۔ مگر یہ پابندیاں مسلم ممالک پر تھرڈ ورلڈ پر ہیں۔
یورپین ممالک خود سب سے زیادہ بناتے اور غریب ممالک پر استعمال کرتے ہیں۔ انہیں تباہ برباد کر دیتے ہیں۔ جیسے آج کل سارا یورپ فلسطین سمیت پورے مشرق وسطیٰ پر گدھ کی طرح ٹوٹ پڑے ہیں۔ غزہ کے بعد لبنان اور اسرائیل کے وزیراعظم کی خواہش ہے کہ ہم مصر، یمن، شام اور سعودی عرب کو بھی گریٹر اسرائیل کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال تو پھر متاثرین صرف مسلمان ہیں۔ تو اس دن کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ مگر مغربی ممالک مہلک کیمیائی ہتھیار بنانا ان کا استعمال اور خریدو فروخت بند کریں۔ 30 نومبر اس کا ہی متقاضی ہے۔