فرقہ ورایت کا عفریت

216

ملک خداداد کو اس عہد کے ساتھ قائم کیا گیا تھا کہ یہاں کسی رنگ، نسل، قوم، مذہب اور فرقے کے امتیاز کے بغیر اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کی جائے گی۔ مگر جلد ہی اس مملکت کو قوم پرستی، نسلی تعصب، مذہبی امتیاز اور فرقہ واریت کے عفریت نے گھیر لیا۔ جس کی وجہ سے ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہم تنزلی کا شکار ہوگئے۔

کچھ دنوں سے ملک ایک بار پھر فرقہ وارانہ عناصر کے نشانے پر ہے۔ جس کی ایک مثال پارا چنار ہے جہاں معصوم لوگوں پر حملے ہو رہے ہیں اور جانی و مالی نقصانات پہنچایا جارہا ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق کچھ پتا نہیں چلتا کہ کہاں سے دہشت گرد آئے اور حملہ کرکے کہاں چلے گئے۔ دو دن شیعہ اکثریت علاقے کے لوگوں پر مسلسل حملوں کے بعد اب سنی افراد پر حملوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ گویا دشمن فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لیے مسلسل آگ جلا اور اس پر تیل چھڑک رہا ہے۔ صورتحال کو بد سے بدتر بنانے میں دشمن مسلسل کامیاب ہو رہا ہے۔ بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دشمن کے عزائم کو کامیابی خود اندرونی خلفشار سے ہورہی ہے۔

بدقسمتی کہ یہ پہلی بار نہیں ہے بلکہ ملک و مذہب کے دشمن عناصر نے اس سے قبل بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ نہ تو حکومت اس مسئلے کی بیخ کنی کے لیے قرار واقعی اقدامات اٹھا سکی ہے جس سے فرقہ ورایت کا ناسور ختم ہوسکے اور نہ قوم دشمن کی چالوں کو سمجھ کر صورتحال کی نزاکتوں کے پیش نظر کوئی سنجیدہ مظاہرہ کرسکی ہے اور نہ ہی عوامی نمائندے اور مذہبی اکابرین کوئی مثبت کردار ادا کر سکے ہیں۔

اگر ہم نے فوری طور پر اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا نہ کیا تو یہ آگ پورے ملک کو لپیٹ میں لے لے گی اور ممکن ہے کہ پھر صورت حال ہمارے کنٹرول سے باہر ہو جائے۔ اس لیے قانون نافذ کر نے والے اداروں کو دہشت گردوں کے خلاف سخت ترین ایکشن لینے کے ساتھ ساتھ متاثرہ علاقوں میں ریاست رٹ کو قائم کروانے کے احکامات جاری کیے جائیں۔ اس کے علاؤہ دونوں فرقوں کے تمام اکابرین کی مدد حاصل کی جائے اور علاقے کے عمائدین، بااثر افراد، سیاسی جماعتوں کے نمائندے اور حکومتی مشینری اپنا اپنا مثبت رول ادا کریں۔ اس کے علاوہ باہمی روابط قائم کروانے اور یکجہتی کے لیے میڈیا کی مدد بھی حاصل کی جائے اور فرقوں کے درمیان ہم آہنگی کے لیے قلیل اور طویل مدتی پالیسی اپنائی جائے اور فرقہ پرست عناصر کے خلاف سخت ترین ایکشن لیا جائے۔