ایک جج کہلانے والے کی ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر چل رہی جس میں وہ ایک بھکاری بچی کے جملے کو محور بنا کر دکھ بھرے انداز میں کہہ رہے ہیں کہ ملک میں سال 2001 سے کوئی بھی ادارہ قانون کی راہداری پر گامزن نہیں ہے اور ملک پر لٹیروں کی بالادستی ہے۔ مفاد پرستوں کا غلبہ اور چند ہزار افراد ملک اور قوم کا لہو چوس رہے اور 25 کروڑ افراد کو یرغمال بنائے ہوئے وہ دعا کرتے ہیں کہ یااللہ اس مخلوق کو تباہ کرکے دوسری مخلوق لا۔ بات میں تو وزن ہے یہ حساس، صاحب ِ ضمیر، کے دلوں کی آواز ہے مگر بات 2001 سے شروع نہیں ہوتی البتہ توانا، طاقتور، بے قابو ضرور ہوگئی ہے وہ یوں کہ پاکستان نظریہ اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا مگر اس کے مقابل مقتدرہ نے نظریہ ضرورت ایجاد کرکے مصنوعی کاشت سے کام نکالنے کا حربہ اپنالیا اور پھر اس طور طریقے نے یہ دن دکھائے کہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان اب اغیار کی دھول چاٹنے پر مجبور ہے۔ نظریہ ضرورت نے عدلیہ سے جنم لیا اور ایوب خان کے مارشل لا کو قانونی چھتری مل گئی۔ ایوب خان کے وزیر خزانہ نے مشرقی پاکستان کو بوجھ قرار دے کر ان کے رہنمائوں کو علٰیحدہ ہونے کا مشورہ دیا وہ نہ مانے تو ایوب خان کے وزیر الطاف گوہر نے نظریہ ضرورت کے تحت عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمن کو چھے نکات کا نسخہ دے کر اس کے غبارے میں ہوا بھر دی پھر جب یہ غبارہ گلے پڑا تو یحییٰ خان اور اس کے حواریوں نے دل کا غبار نکالنے کے لیے عبدالمجید بھاشانی کو پروموٹ کرنا شروع کردیا مگر اس سے کیے وعدے پور نہ ہوئے اور یوں مشرقی پاکستان بنگلا دیش کی راہ پر چل پڑا۔ تو پھر نظریہ ضرورت نے جماعت اسلامی کی راہ دکھائی۔
اسلام، حب الوطنی کی قرآنی تعلیمات سنا کر البدر الشمس کے ذریعے ملک کی ڈبوتی نائو کو بچانے کی کوشش کی۔ جماعت اسلامی کو مغربی پاکستان میں کائونٹر کرنے کے لیے نظریہ ضرورت نے مسلکی نسخہ سمجھایا تو بریلوی مسلک کی تنظیم کھڑی کردی گئی۔ اور یوں پھر بھی جماعت اسلامی کے جانبازوں نے مشرقی پاکستان کو بچانے کی بھرپور کوشش کی تو فوج نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈال دیے تو البدر الشمس کے رضا کاروں کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ تم جانو تمہارا خدا جانے اور چل دیے۔ قیدی بننے، بچے کھچے مغربی پاکستان کے صوبہ سندھ میں جماعت اسلامی نے قدم جما کر بلدیہ میں کامیابی حاصل کی تو پھر نظریہ ضرورت یاد آیا اب مسلکی نہیں لسانی زہر اپنایا گیا۔ مہاجر قومی موومنٹ کو پروان چڑھایا اس تنظیم کا جادو جب سر چڑھ کر بولنے لگا۔ تو اس کو کائونٹر کرنے کے لیے سنی تحریک کی آبیاری کی وہ بھی آپے سے باہر ہوئی تو نشترپارک کے ایک دھماکے سے اس کے پرخچے اڑا دیے گئے۔
بھٹو کی طاقت توڑنے کے لیے محمد نواز شریف کو گود لیا گیا جس نے جاگ پنجابی جاگ کا لسانی نسخہ اُبھار کر پی پی کو پنجاب میں جھاگ کی طرح بٹھادیا۔ اور پی پی پی سندھ میں قید کردی کہ لو یہ جھنجھنا جائو کھیلو۔ اس نے ایسا کھیل شروع کردیا کہ مقتدرہ کے ہاتھوں کے طوطے اُڑادیے۔ اس نے فائول کھیلنا، قوم پرستوں کو استعمال کرنا، اپنوں کو نوازنے کا ہر حربہ استعمال کیا خوب کھایا اور کھلا کر ان پاک پوتروں کو خراب کردیا جو شاہین کہلاتے تھے۔ سنی قوت کو استعمال میں لانے کے لیے تحریک لبیک اٹھائی مگر پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا تھا یہ کچھ لو کچھ دو کی بات کرنے لگی۔
سندھ میں قوم پرستوں کو پی پی پی کو کائونٹر کرنے کے لیے ایک گورنر سندھ نے مقبول قوم پرست لیڈر کو گلشن حدید میں شاندار بنگلہ تحفہ میں دیا مگر پھر اس کی اڑان اونچی دیکھ کر اس کو بھی دارلبقاء بجھوادیا۔ بچھڑے ہوئے ملا کر جی ڈی اے بنادی۔ مسلم لیگ ق بنادی اور پھر اپنے گھروندے ملیا میٹ کرنے کے لیے تحریک انصاف گھڑلی گئی اور اقتدار کا گھڑ سوار بنادیا تو خود ساختہ سونا کان کھانے لگا اور گلے پڑنے لگا تو وہ پرانے پیاز نظریہ ضرورت نے یاد دلادیے جن کو اگل دان میں پھینک دیا تھا یوں نظریہ ضرورت نے ایک مرتبہ پھر ان کے پوبارے کردیے۔ دھاندلی سے رزلٹ کو دھندلا کر مقتدر کی اسموگ نے پھر ان کو اقتدار پر گڈی کی طرح بٹھادیا۔ یہ نظریہ ضرورت ہی تباہی کا باعث ہے۔
ضرورت تو ہے اللہ کے خوف کے حامل قیادت کی جو ملک کی باگ سنبھالے اسلام کے اصولوں کے تحت عدل کا نظام قائم کرے اور ان خطوط پر حکمرانی کرے جو اسلاف بالخصوص خلفائِ راشدین نے کی۔ نظریہ ضرورت کی نظر بد نے نظریہ پاکستان لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کو پش پشت ڈال کر یہ دن دکھائے کہ گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے، ملک میں نظریہ ضرورت نے فارمی سیاست اور پارٹیوں کو پیدا کرکے پروان چڑھایا ہاں جب جان کو آن پڑی تو نظریہ پاکستان کا واسطہ دے کر اُن پارٹیوں کو مدد کے لیے پکارا جو نظریہ پاکستان کی خاطر جان و مال قربان کرنے کو سعادت قرار دیتی ہیں اور پھر کام نکال کر ’’میاں بھائی‘‘ کس کے کام نکلا کھسکے، کی مثال بن گئے، اب یہ ڈراما بازی ختم کریں۔ ملک اور قوم کی بقا نظام اسلام میں ہے نظریہ ضرورت میں ہرگز نہیں۔