بُشریٰ بی بی کا یہ دعویٰ کہ اُن کے بیان کو اُس حوالے سے نہیں دیکھا جارہا ہے جس کی طرف اُنہوں نے اشارہ کیا ہے۔ اُن کے اِس بیان کی مَیں بھی تائید کرتا ہُوں کیونکہ مَیں نے محترمہ کا ویڈیو بیان دیکھا اور سنا ہے جس کا متن یہ ہے کہ عمران خان صاحب جب مدینہ شریف لے جاتے تھے تب وہ وہاں کی سرزمین پر ننگے پاؤں پھرتے تھے، خان صاحب ایسا کیوں کرتے تھے، اِس حوالے سے محترمہ نے کوئی تفصیل نہیں دی ہے۔ یہ بات خان صاحب کی زبانی سن کر ہی معلوم کی جاسکتی ہے کہ وہ صرف مدینے ہی میں ننگے پاؤں پھرتے تھے یا مکّہ شریف میں بھی وہ یہی عمل اختیار کرتے ہیں اور وہ ایسا کرتے ہیں تو کیوں کرتے ہیں۔ فی الوقت بُشریٰ بی بی کے اُس بیان کی طرف آتا ہُوں کہ خان صاحب کا مدینے میں ننگے پاؤں چلنے کا یہ عمل کسی کو پسند نہ آیا چنانچہ اُس نے جنرل باجوہ کو فون کرکے کہا: ’’یہ تم کیا اُٹھاکے لے آئے ہو‘ ہم اِس مُلک سے شریعت کو ختم کرنے پر لگے ہوئے ہیں اور تم شریعت کے ٹھیکے داروںکو لے آئے ہو، ہم یہ پسند نہیں کریں گے‘‘۔ یہ تو معلوم ہوگیا کہ یہ مکالمہ سننے والے جنرل باجوہ تھے لیکن پس پردہ رہ کر یہ بات کہنے والا کون تھا؟ اِس حوالے سے بُشریٰ بی بی نے نہ تو کسی مُلک کا نام لیا ہے اور نہ اُنہوں نے کسی شخصیّت ہی کا کوئی حوالہ دیا ہے۔ خاتون نے صرف یک طرفہ طَور پر جنرل باجوہ کا ذِکر کیا ہے۔ میرے خیال میں بُشریٰ بی بی نے متذکرہ بیان دے کر اُن لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جو نہ صرف سیدنا محمد مصطفیؐ کی ذاتِ گرامی سے انتہائی عقیدت رکھتے ہیں بلکہ آپؐ کی استعمال کی ہوئی چیزوں کو بھی عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
بہرکیف! اِس بیان پر چیں بجبیں ہونے والوں سے میرا سوال یہ ہے کہ وہ اربابِ اقتدار سے اِس بات کی تحقیق کا مطالبہ کیوں نہیں کر رہے ہیں کہ ہمارے مُلک میں وہ نامُراد کون ہے جو شریعت کے نظام کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ واقعات کی تشریح اور گواہی کے لیے بُشریٰ بی بی اور جنرل باجوہ عوام کے آمنے سامنے اگر بیٹھ جائیں تو بہت بہتر ہوگا۔
پاکستان اور پاکستانیوں کے نذدیک اصل
مسئلہ تو شریعت کے نفاذ ہی کا ہے۔ بعض لوگ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ دنیا میں بہت سارے ممالک ہیں جہاں شریعت سے نہ تو وہاں کے عوام واقف ہیں اور نہ وہاں کے حکمران شرعی نظام سے کوئی دلچسپی رکھتے ہیں لیکن اُن ممالک میں امن وامان ہے اور وہاں کے لوگ خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اِس حوالے سے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اَللہ تعالیٰ کے نذدیک امن وامان اور خوشحال زندگی‘ بنی نوع انسان کی آفرینش کا اصل مقصد نہیں ہے۔ انسانوں کو اَللہ تعالیٰ نے عبادت کرنے کے لیے پیدا کیا ہے اور جو عبادت کی زندگی گزارکر دنیا سے رخصت ہوگا اُسے آخرت میں جنّت ملے گی جبکہ کُفر کی زندگی گزار کر مرنے والوں کو جہنّم میں جھونک دیا جائے گا۔ یہ لفظ ’’عبادت‘‘ ہے کیا‘ اَللہ تعالیٰ کی فرماں برداری‘ اُس کا خوف اور اُس کی اطاعت اِس لفظ ’’عبادت‘‘ سے ہی ماخوذ ہیں۔ وہ ممالک جو خوشحال زندگی گزار رہے ہیں‘ وہاں پولیس کا خوف تو ضرور دیکھنے میں آتا ہے لیکن اَللہ تعالیٰ کے خوف سے وہ نابلد ہیں۔ جُوا، شراب، زنا اور اِغلام بازی ہر آدمی کا انفرادی عمل اور اُس کا ذاتی حق سمجھا جاتا ہے۔ اِسلامی تعزیرات کے کیا فوائد ہیں اُس کی تفصیل اِس چھوٹے سے صفحے پر تحریر کرنا ممکن نہیں ہے۔ اَللہ تعالیٰ کا ایک حکم کہ چوروں کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں‘ آئیے اِس حکم کے فوائد کا جائزہ لیتے ہیں۔ وہ شخص جو چوری کرنے کے جُرم میں اپنا ہاتھ کٹوا بیٹھا ہو، کیا وہ یا آپ ایک دوسرے کے پڑوس میں ہنسی خوشی رہنا پسند فرمائیں گے۔ کیا آپ اُس چور کو اپنے ساتھ کاروبار میں شریک کرسکتے ہیں یا اُس چور کی بہن یا بیٹی اور بیٹے سے اپنے بچّوں کا رشتہ کرنا پسند فرمائیں گے۔ صاف بات ہے کہ آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔ چوروں کے ہاتھ کاٹنے کا قانون نافذ نہ ہونے کے باعث اِس فن میں ہُنرآزمائی کرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔ میری مراد چائے اور نان کھا کر پیسے کی ادئیگی کیے بغیر بھاگ جانے والوں سے ہرگز نہیں ہے۔ میرا اشارہ اُن لوگوں کی طرف ہے جن کے چہرے تو چمکتے ہوئے نظرآتے ہیں لیکن چوری کا مال کھا کھاکر اُن کے دل سیاہ تر ہوچکے ہیں۔ علامہ اقبال ؒ مرحوم اِس زمانے میں موجود ہوتے اور ہمارے حکمران اور وزرا سے اُن کا اگر سامنا ہوتا تو اُن کے مُنہ سے بے ساختہ اُن کا کہا ہُوا یہ شعر بے ساختہ نکلتا:
’’چہرہ روشن‘ اندروں چنگیز سے تاریک تر‘‘