مسلم حکمران اب یورپ کی تائید کیوں نہیں کررہے

165

مسلم دنیا اور مغرب کے درمیان کوئی موازنہ نہیں پھر بھی ہمارے حکمران مہذب دنیا صرف یورپ کو کہتے ہیں، قوم کو یورپ سے سیکھنے کے بھاشن دیتے ہیں لیکن آجکل فلسطین کے مظلومین کے معاملے میں یورپ کا ساتھ نہیں دے رہے۔آج اس مسئلے پر سب سے توانا آواز اور جرات مندانہ موقف کے معاملے میں مغرب ہی آگے ہے مسلمان ممالک کے صرف عوام اپنی سی کوشش کررہے ہیں، ان کی آواز بھی مصنوعی ڈراموں میں دبادی جاتی ہے، کہیں سیاسی ہلچل کہیں حکومتوں کی تبدیلی اور کہیں کھیل کود ،اسرائیل کی چیرہ دستیوں اور مظالم کے مقابلے میں جنوبی افریقا نے پہل کی اور اسرائیل کا مقدمہ سب سے پہلے وہ عالمی عدالت انصاف میں لے گیا ،پہلے جنوبی افریقا نے قدم اٹھایا تھا اب یورپ سے آواز اٹھی ہے، عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے پر یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے کہا ہے کہ یورپی یونین کی حکومتیں اس بات کا انتخاب کرنے میں اپنی مرضی نہیں کرسکتیں کہ عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی طرف سے 2 اسرائیلی رہنمائوں اور حماس کے ایک کمانڈر کے خلاف جاری کیے گئے وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد کیا جائے یا نہیں۔ یورپی یونین کی کئی ریاستوں نے کہا ہے کہ ضرورت پڑی تو وہ معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کو پورا کریں گے لیکن ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان نے تو نیتن یاہو کو اپنے ملک کے دورے کی دعوت بھی دی اور یقین دہانی کرائی کہ اگر وہ آتے ہیں تو انہیں کسی قسم کے خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوزپ بوریل نے اسرائیلی اور فلسطینی امن کارکنوں کی ایک ورکشاپ میں شرکت کے لیے قبرص کے دورے کے دوران کہا کہ روم کنونشن پر دستخط کرنے والی تمام ریاستیں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہیں، یہ اختیاری معاملہ نہیں ہے۔ اس طرح کی ذمہ داریاں یورپی یونین میں شامل ہونے کے خواہشمند ممالک پر بھی عاید ہوتی ہیں، یہ بہت مضحکہ خیز ہوگا کہ نئے آنے والے ممالک کے لیے ایک ذمہ داری ہے جسے پہلے سے موجود ممبران پوری نہیں کرتے۔جوزپ بوریل نے کہا کہ جب بھی کوئی کسی اسرائیلی حکومت کی پالیسی سے اختلاف کرتا ہے تو اس پر یہود مخالف ہونے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے یہود مخالف ملزم ہوئے بغیر اسرائیلی حکومت کے فیصلوں پر تنقید کرنے کا حق ہے، خواہ وہ نیتن یاہو ہو یا کوئی اور رہنما یہ (الزام) قابل قبول نہیں ہے۔ اتفاق ہے کہ جوزپ بوریل رواں ماہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہورہے ہیں ، لیکن یہ پاکستانی ذمہ داری نہیں کہ منصب پر رہتے ہوئے کچھ بھی کہا جائے اس کی باز پرس نہیں ہوتی بلکہ یہود مخالفت کے ہتھیار کو استعمال کرنے والے تو عام آدمی کو بھی نہیں چھوڑتے اس اعتبار سے بوریل کا بیان جراتمندانہ ہے ، لیکن کیا وجہ ہے کہ اسلامی ممالک کے حکمران مسلم افواج کے کمانڈرز اور بڑے بڑے لیڈرز عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے پر عملدرامد پر زور دینے کی بھی کوشش نہیں کررہے بلکہ چوں کی اواز بھی نہیں نکل رہی، بوریل نے جو اصول بتایا ہے اس کے مطابق یورپی یونین میں شمولیت کے خواہشمند ملکوں کو بھی لازما عالمی فوجداری عدالت کے فیصلوں کی پابندی کرنی ہوتی ہے اس اعتبار سے ترکی ان مسلم ممالک میں شامل ہے جو قانونا اس فیصلے بپر عمل کے پابند ہیں، لیکن دیگر مسلم ممالک دنیا سے اس پر عمل کا مطالبہ تو کرسکتے ہیں ان کی زبانیں کیوں گنگ ہیں۔ واضح رہے کہ اس ماہ کی 21 تاریخ کو عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔ اسرائیلی وزیراعظم اور سابق وزیر دفاع کے وارنٹ گرفتاری نہتے شہریوں پر حملوں، بھوک اور غذائی کمی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی وجہ سے کیے گئے تھے۔بیان کے مطابق عدالت کے پاس اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ نیتن یاہو اور یووو گیلنٹ نے مشترکہ طور پر ان جرائم ،جن میں جنگ اور قتل، بھوک اور غذائی کمی کا جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال، ظلم اور دیگر غیر انسانی سلوک شامل ہیں، کا ارتکاب کیا ، دونوں غیرفوجی حکام کی حیثیت سے شہری آبادی کے خلاف دانستہ حملوں کی صورت میں جنگی جرم کے مرتکب بھی قرار پائے ہیں۔عدالت کا کہنا تھا کہ دونوں شخصیات کے وارنٹس مقتولین اور ان کے اہلخانہ کے بہترین مفاد میں جاری کیے گئے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ دنیا کے 125 ممالک روم کانفرنس کے اس معاہدے پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں جس کے تحت وہ آئی سی سی کے فیصلوں پرعمل کے پابند ہیں۔ لیکن یہ پہلو انتہائی قابل غور ہے کہ دنیا بھر میں جنگوں ،علاقائی تنازعات اور انسانی حقوق کی پامالی میں کسی نہ کسی طور شریک اہم ممالک امریکا، اسرائیل، روس ،چین اور بھارت نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں، اور پاکستان آئی سی سی کے قیام کا بڑا مستعد وکیل رہا اس کے قیام کے حق میں ووٹ بھی دیا لیکن اس کی توثیق نہیں کی ہے، اس صورتحال کو سامنے رکھیں اور عالمی قطبی سیاست کو سامنے رکھیں تو آئی سی سی کے فیصلوں پر عمل مشکل نظر آتا ہے ،یہ اسی وقت ممکن ہے جب سعودی عرب، ترکی ،ایران اور پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک اس فیصلے پر عملدرآمد پر زور دیں ، لیکن سوال یہی ہے کہ کیا پاکستان اس قسم کا مطالبہ کرے گا، جبکہ امریکا روس اور چین نے معاہدے پردستخط نہیں کیے ہوئے۔