تاریخ کے عبرت کدے میں اندراج

425

ملک میں مال و ملکیت بڑھانے کا مقابلہ حکمرانوں اور سیاست دانوں سے لے کر علما کہلانے اور گدی نشینوں تک اور اسی طرح صحافیت کے قلم فروشوں میں بڑھ چڑھ کر ہے۔ وہ قرآن کی آیت تمہیں کثرت نے ہلاکت میں ڈال دیا ہے کہ مصداق ہوچکے ہیں اور قبر میں پائوں لٹکائے ہوئے ہوتے بھی سم و زر سمیٹنے کے ہر ہر حربہ کو بروئے کار لائے ہوئے ہیں، حلال و حرام کی تمیز تو مدت ہوئی رخصت ہوچکی ہے۔ ان لٹیروں، حرام خوروں کے پاس اتنا مال ہے کہ خود ان کو بھی یاد نہیں بس سمجھ لیں کہ یہ سمندر کے پیاسے ہیں جتنا پیتے ہیں اتنی ہی ان کی پیاس و ہوس بڑھتی ہے ان کی بھوک قبر کی مٹی ہی پوری کرے گی۔ تاریخ کا یہ واقعہ یاد دہانی کے طور پر گوش گزار ہے کہ قارون، جو دنیا کا مالدار ترین آدمی تھا اس کے خزانے کا کوئی حساب نہ تھا اس کے خزانے کی چابیاں 80 اونٹ پر لدی ہوتی تھیں وہ تکبر کا شکار ہو کر اس مال ملکیت کو اپنا ہنر اور محنت قرار دیتا اور لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ وہ آج کے اس مال کے فتنہ سے متاثر افراد کی طرح جو کہتے ہیں کہ مال میں سب کچھ ہے، کا بانی تھا، ربّ کے قہر نے اسے پکڑا تو زمین کو حکم دیا کہ وہ اس کو مال سمیت نگل لے اور یوں اس کا مال اور خود مٹی کی خوراک بنادیے گئے۔ تاریخ کا ایک اور عبرتناک واقعہ جو حیرت ناک بھی ہے وہ ان ہوس زدہ امیر ’’مارکس لیسینیس کراسس کی داستان یوں رقم ہے کہ اس شخص کا شمار تاریخ کی امیر ترین شخصیات میں ہوتا تھا اس کا دور پہلی صدی قبل مسیح کا ہے اُس وقت اس کی مجموعی دولت کی مالیت کا تخمینہ 170 ملین مسٹرس (کرنسی) تھا کہ جنرل رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والے پہلے لوگوں میں سے ایک تھا جس نے روم کی تباہی کے بعد وسیع پیمانہ پر زمین اور مکانات خریدے اور اسے بحال کرنے اور دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے بلڈروں، انجینئروں اور معماروں کی ایک جماعت بنا کر اپنی غلام فوج میں شامل کرلیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دولت کا اتنا پیاسا تھا کہ اُس وقت

تک اس کی موت واقع نہ ہوئی جب تک اس کے منہ میں پگھلا ہوا سونا نہیں ڈالا گیا۔ آج کل بھی رئیل اسٹیٹ کے کنگ کہلانے والوں کی حالت اس سے مختلف نہیں وہ بھی ہر ہتھکنڈے سے زور و زبردستی سے حکومتی اثر رسوخ سے، رشوت دے کر، غنڈوں کی مدد سے شیطان کی آنت کی طرح اسکیموں کا پھیلائو کررہے ہیں اور سم و زر میں گنگا اشنان کررہے ہیں اور یہ بھی قارون اور مارکس لیسینیس کراسس کی طرح جوع ابتر کے شکار ہیں۔ اور تاریخ کے ان اسباق کو بھولے ہوئے ہیں جو آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ ان کے پاس مال و اسباب کی تو بہتات ہے مگر ان کا رزق شرمناک حد تک محدود ہے۔ سورہ الحج کی اس آیت کے ترجمہ کی یہ تصویر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل کے اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں یہ بستی بسانے اور مال کمانے والے اس روشن ہدایت کو بھی بھولے ہوئے ہیں جو سورہ القصص میں یوں بیان کی گئی ’’اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کرچکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر اترا گئے تھے سو دیکھ لو وہ ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے آخر کار ہم ہی وارث ہو کر رہے۔

دولت کوئی بری چیز ہرگز نہیں صحابہ کرام میں کئی کبار صحابہ خوب دولت مند گزرے ہیں۔ سیدنا عثمان غنیؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ کے پاس مال بھی خوب تھا تو ایثار بھی اس سے بڑھ کر تھا۔ وہ سینت سینت کر نہیں رکھتے تھے نہ گن گن مال جمع کرتے اور بے حساب اللہ کی راہ میں لٹاتے تھے وہ دولت کو دیوتا ہرگز نہیں قرار دیتے تھے بلکہ اس کو ربّ کی عطا سمجھ کر معاشرے میں کھپاتے تھے۔ آج پاکستان معاشی گراوٹ کا شکار آئی ایم ایف کے چنگل میں جکڑ کر سسک رہا ہے پاکستان کے زرداری، شریف، حکمران علما کرام، گدی نشین، صحافی اپنی بیرون ملک جمع شدہ دولت پاکستان لے آئیں تو خوشحالی پاکستان کا مقدر بن جائے اور ہمیں عزت، آبرو ضمیر کا سودا نہ کرنا پڑے گا۔ یہ وقت کی آواز ہے کان نہ دھرو تو پھر کوئی بعید نہیں کہ ربّ کا وہی فیصلہ ان پر نافذ ہوجائے اور وہ بھی تاریخ کے عبرت کدے میں اندراج کردیے جائیں۔ فاعتبرویااولیٰ الابصار۔