میں: آج کی گفتگو کا عنوان بتا رہا ہے کہ آج پھر کسی کی شامت آئی ہے؟
وہ: اس ملک میں سوائے عوام کے آج تک کس کی شامت آئی ہے؟ کبھی روٹی، کپڑا، مکان کے وعدے وعید کیے گئے، لڑو گے، مرو گے کے عہدو پیمان لیے گئے، قرض اُتارو ملک سنوارو کے خوشنما نعرے لگائے گئے مگر خوشحالی کی منزل ِ مراد پانے کے لیے ہر بار بیچارے عوام ہی کو قربانی کا بکرا بنایا گیا اور ہر آنے والے نے ہر بار یہی کہا کہ بس یہ آخری بار قرضہ لیا ہے، ہم نے وہ کشکول بنالیا ہے جو کچھ ہی دن میں ہم توڑنے والے ہیں۔ جیسے جیسے ہماری معیشت کے مائی باپ یعنی آئی ایم ایف والے ہمارے غلام آقائوں کو ہدایات دے رہے ہیں اور وہ مِن وعَن اس پر عمل کرتے جارہے ہیں۔ حکومت کو اپنے انتظامی اخراجات میں کمی کا کہا گیا تو آن کی آن میں ایک کمیٹی بنائی گئی اور اس نے چند ہی دن میں اپنی سفارشات پیش کردیں جس میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ ہائوس میں چھوٹے گریڈ کے ملازمین کو فارغ کردیا جائے جن میں الیکٹریشن، پلمبر، مالی اور دیگر عملہ شامل ہے اور ضرورت پڑنے پر اس نوعیت کے تمام کام ٹھیکے یا روزانہ کی اُجرت کی بنیادپرکرائے جائیں گے۔ ساتھ ہی گریڈ 1 سے 16 کے اضافی ملازمین کی چھانٹی کے لیے Severance Package متعارف کیا گیا ہے یعنی ملازمت سے علٰیحدگی کا پیکیج جس میں کچھ پرکشش مراعات اور نقد رقم دے کر انہیں ان کو مستقل سرکاری نوکریوں سے فارغ کردیا جائے گا اور اسے قبول نہ کرنے والوں کو ٹھینگا دکھا کر برخاست کردیا جائے گا۔
میں: لیکن میرے خیال سے یہ ایک اچھا اقدام ہے، اس سے کم از کم ان بھرتیوں کی حوصلہ شکنی ہوگی جو مختلف ادوارِ حکومت میں اپنے من پسند افراد کی خوشنودی کے لیے سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہیں۔
وہ: میں تم سے سو فی صد متفق ہوں، لیکن میرے خیال سے اگر یہ چھری نچلے درجوں کے ملازمین کے بجائے گریڈ 17 سے 22 تک کے عہدیداران اور افسران پر چلائی جاتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ ساتھ ہی ملک کے مختلف اضلاع اور شہروں میں انتظامی امور کی نگرانی کے لیے تعینات سول سروس کے نمائندوں جیسے سیکڑوں ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ کمشنرز، ہزاروں اسسٹنٹ اور ایڈیشنل کمشنرز، سیکریٹریز اور بے شمار بے مصرف عہدے، جن میں سے بیش تر کے لیے سرکاری نوکری کا مقصد صرف اور صرف تنخواہ اور مراعات کا حصول ہوتا ہے ورنہ ان کے پاس کرنے کے لیے نہ جانے کتنے کام ہوتے ہیں اور جن کے پاس کام نہیں ہوتے وہ اپنے عہدوں پر بیٹھے بیٹھے باہر تعینات اپنے ایجنٹوںکے ذریعے تنخواہ سے تین سے چار گنا زیادہ رقم تھیلے بھر بھر کے گھر لے جاتے ہیں۔
میں: یہ ایجنٹوں سے تمہاری کیا مراد ہے؟
وہ: اتنے بھولے نہ بنو میاں ننھے! کیا کبھی سرکاری دفتر میں کسی کام سے جانا نہیں ہوا؟ بلڈنگ کنٹرول کا دفتر ہو، پانی اور سیوریج کا بورڈ ہو، محکمہ تعلیم سے جڑا کوئی معاملہ ہو، کسی تھانے میںکوئی رپورٹ یا شکایت درج کرانی ہو یا ان سب کے علاوہ کوئی اور نام نہاد محکمہ ہو، ہر دفتر میں کہیں عمارت کے اندر اور کہیں باہر یہ ایجنٹ موجود ہوتے ہیں جن کی چیل جیسی نظریں گاہک کو دیکھتے ہی تاڑ لیتی ہیں کہ اسامی کتنی موٹی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی سرکاری اسکول یا کالج کے استاد کو اپنا کہیں ٹرانسفر کروانا ہو یا ریٹائرمنٹ کے بعد گریجویٹی کی رقم یا پنشن جاری کرانے کا معاملہ ہو، بیچارے استاد کے پاس اس ایجنٹ کے بغیر اس کام کو کرانے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا، اور کام کروانے کی رقم اس کے گریڈ کے حساب سے طلب کی جاتی ہے۔ جیسے اگر کوئی اٹھارہ یا انیس گریڈ میں ریٹائر ہوا ہے تو اس کو کم ازکم ڈھائی سے تین لاکھ روپے اپنی گریجویٹی اور ماہانہ پنشن جاری کرانے کے لیے بطور رشوت ادا کرنے ہوں گے۔ میرے دوست میں ان لوگوں کو ذاتی طور پرجانتا ہوں جنہوں نے کئی سال جوتیاں گھسنے کے بعد بھی کام نہ ہونے پر بالآخر ایک ایجنٹ کو پیسے دے کر ہی اپنی مراد پائی۔ اور تم کیا سمجھتے ہو یہ ایجنٹ کیا آسمان سے اُترتے ہیں یہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے افسران کے گرائیں اور گماشتے ہوتے ہیں۔ ان ایجنٹوں کو تو بس ان کاکام کرنے کا کمیشن ملتا ہے ورنہ تھیلے توان بے غیرت اور بے ایمان سرکاری افسران ہی کے بھرتے ہیں، جو اس ملک کو جھوٹے اور بدعنوان سیاست دانوں اور بے ضمیر جرنیلوں کے ساتھ مل کر دیمک کی طرح چاٹ چکے ہیں۔ کسی تھانے چلے جائو کچی ایف آئی آر کے دو ہزار اور پکی کے پانچ ہزار۔ واٹر بورڈ کے دفتر چلے جائو پرانا بل نکلوانا ہوتو ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بیس پچیس ہزار کی رشوت دے کر چھے مہینے کا بل ہاتھ کے ہاتھ مل جاتا ہے، لیکن اگر آپ ایڈجسٹمنٹ نہ کروانا چاہیں اور ایمانداری سے پورا بل ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو پھر ایک درخواست کے ساتھ دسیوں طرح کے کاغذات درکار ہوں گے اور پھر وہ درخواست واٹر بورڈ کے ہیڈ آفس جائے گی اور پھر رُلتے رہیے، خوار ہوتے رہیے۔ ہمارے ایک واقف کار کوانٹر بورڈ کے آفس سے اپنی بچی کے داخلے کے لیے مائیگریشن سرٹیفکیٹ نکلوانا تھا، کئی چکر لگانے کے بعد بھی کاغذات پورے ہونے کے باوجود پورے نہیں ہورہے تھے تو وہاں موجود ایک اہلکار کے بتانے پر انہیں قائداعظم کی تصویر والا مطلوبہ کاغذ ساتھ لگانا پڑا۔ یہ تو بس ایک دو مثالیں ہیں ورنہ تو ضمیر فروشی کی یہ داستان اتنی طویل ہے کہ اس کو رقم اور محفوظ کرنے کے لیے دفتر کے دفتر کم پڑجائیں۔ صورت بس یہ ہے کہ ان مختلف محکموں میں براجمان محب وطن پاکستانیوں کے عہدے اور نام الگ الگ ہوتے ہیں۔ کہیں مختارکار، کہیں رجسٹرار، کمشنر، کلکٹر، فاریسٹ آفیسر، محتسب، ریونیو ڈائریکٹر، سیکرٹری، کلرک، کیشئر، ایس پی، ڈی ایس پی، سپاہی، بھکاری، مداری وغیرہ وغیرہ۔
میں: لیکن جیسا تم نے کہا کہ یہ کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر وغیرہ یہ سب تو انتظامی عہدے ہوتے ہیں اور ان کا کام توبس میونسپل کارپوریشن اور دیگر حکومتی محکموں کے منصوبوں کی نگرانی اور ان پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوتا ہے۔
وہ: یقینا لیکن ان کے علاوہ ان عہدیداروں کا کام ریونیو کی وصولی کا بھی ہوتا ہے، جوکہ کم وبیش ہر محکمہ میں کیا جاتا ہے، جہاں ہر ضلع، تحصیل، ٹائون، یونین کونسل وغیرہ کے حساب سے الگ الگ ڈائریکٹران کی فوج ظفر موج تعینات ہوتی ہے جو ہر قانونی کام کو بے ایمانی کے زریں اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اتنی ایمان داری سے سرانجام دیتے ہیںکہ آپ دادو تحسین دیے بغیر نہ رہ پائیں گے۔ میرے بھائی یہاں ہر چیز کا ٹھیکہ ہوتا ہے اور اس کے لیے ٹینڈر کھولے جاتے ہیں، بارش کے بعد سڑکوں کی استرکاری کا ٹھیکہ، کچرا کنڈیوں کی تعمیر کا ٹھیکہ، پارکوں میں گھاس اور درخت لگانے کا ٹھیکا، گلیوں، بازاروں میں لائٹس لگانے کا ٹھیکا غرض کہ کوئی کام اس کے بغیر ہوتا ہی نہیں، لہٰذا ٹھیکا یا ٹینڈر ملنے سے پہلے آپ کو متعلقہ افسر کو کمیشن دینا ہوگا یہاں تک کہ تھانے بھی بکتے ہیں اور علاقوں کے حساب سے ان کی بولیاں لگائی جاتی ہیں جوکہ بعض اہم علاقوں کے تھانوں کی پانچ پانچ اور دس دس کروڑ کے قریب ہوتی ہے، اہم علاقوں سے مطلب ہے جہاں جرائم کی تعداد زیادہ ہے اورخاص طور پر وہاں دوسرے شہروں سے آنے والی منشیات اور اسمگلنگ کی اشیاء وافر مقدار میں پکڑی اور بھاری رشوتوں کے عوض چھڑائی جاتی ہیں۔ اگر کوئی غریب کسی عوامی جگہ یا بازار میں کسی کونے پر آلو کے چپس بیچنے کا اسٹال بھی لگائے گا تو ماہانہ یا روزانہ کے حساب سے بھتا یا نذرانہ کسی غریب اور مسکین افسرکے مقرر کردہ نمائندے یعنی بھتا خور کو پیش کیے بغیر اس کے لیے حلال کی روٹی کمانا ممکن ہی نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف محکموں میں افسران اور ڈائریکٹران کی ینٹی کرپشن یعنی بدعنوانی اور رشوت ستانی سے جڑے معاملات کی نگرانی بھی شہر کے ان کرتا دھرتائوں کی ذمے داری ہوتی ہے۔ لہٰذا جہاں کوئی ایسا ویسا معاملہ سامنے آتا ہے تو باہمی مشاورت اور لین دین سے بحسن وخوبی طے کرلیا جاتا ہے، کون پڑے عدالتوں اور مقدمے بازی کے چکر میں پہلے ہی عدالتوں کے پاس کیس کم ہیں جو ان پر اور بوجھ ڈالاجائے اور پھر محکمے کی عزت بھی رکھنی ہوتی ہے۔
میرے دوست اصل میں یہ انگریز کا بنایا ہوا جینٹل مین کا وہ نظام ہے جو اس نے اپنی آقائیت کو برقرار رکھنے اور برصغیر کے عوام کو یہ باور کرانے کے لیے بنایا تھا ان کے ذہنوں سے غلامی کا احساس لمحہ بھر کے لیے بھی محو نہ ہونے پائے۔ اور آج بھی کسی بھی سرکاری دفتر یا کمشنر، ڈائریکٹر وغیرہ کے دفتر تک رسائی یا اپنی کوئی شکایت پہنچانے کے لیے ایک عام آدمی خود کو ان کا غلام ہی تصور کرتا ہے، جبکہ اصل میں یہ سول سرونٹ یعنی عوامی خدمت گار کے منصب پر فائز ہوتے ہیں۔ لیکن یہ تمام نام نہاد افسران صرف اس وقت حرکت میں آتے ہیں جب کسی علاقے یا شہر میں کسی وی وی آئی پی کی آمد کی گہما گہمی ہو اور اسے سڑکوںکے بے ہنگم رش اور بدتہذیب عوام کی نظروں سے بچانے کی بنیادی ذمے داری نبھانا ہو۔